Header Ads

  • Breaking News

    Yar E Saien By Nimra Tariq Complete Novel

    Yar E Saien By Nimra Tariq Complete Novel

     Yar E Saien By Nimra Tariq Complete Novel 

    یہ اندھیری رات جیسے ان کے لیے سیاہی بن کے آئی تھی دادا سائیں اپنا سینہ مسلسل مسل رہے تھے اس وقت ہسپتال میں بھی ایک وحشت ناک خاموشی کا راج تھا اندر عادل سائیں جا آپریشن چل رہا تھا ڈاکٹر پوری طرح سے نا امید تھے اور یہی نا امیدی وہ انکے حوالے بھی کر گئے تھے ان کی سانسیں جیسے اس دروازے کے ساتھ اٹکی ہوئی تھیں۔۔۔


    دل مانو سینے کی دیواریں توڑ باہر آنے کو بے تاب تھا انھیں اپنی دھڑکنیں کانوں میں بجتی محسوس ہر رہی تھیں دل کانپ رہا تھا کہ کہیں کوئی بری خبر نا سننے کو مل جائے انھیں یوں لگ رہا تھا جیسے کچھ ہی لمحوں میں انکی کل کائنات لٹ جائے گی انکا عادل سائیں انھیں چھوڑ کر چلا جائے گا انکی ساری جائیداد کا اکلوتا وارث انکا چشم و چراغ انکا پوتا عادل ہمیشہ کے لیے انھیں موند لے گا۔۔۔


    اور پھر جیسے ایسا ہی کچھ ہوا باہر جلتی سرخ لائٹ بند ہو گئی اور شاید اس لائٹ کے ساتھ عادل سائیں کی زندگی کی لو بھی بجھ گئی تھی۔۔۔۔


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    داد سائیں میں شکار پر جا رہا ہوں۔۔۔۔


    وہ ہر روز کی طرح اپنے کمرے سے نکلتا سب سے پہلے اپنے داد کے ہی کمرے میں باہر آیا تھا سفید کڑکتا سوٹ اس پر موجود کالی شال پیروں میں خالصتاً مردانہ پشاوری چپل پہنے وہ مکمل تیار سیدھا انہی کے پاس آ پہنچا تھا انھوں نے ایک نظر اپنے خوبرو پوتے پر ڈالی بے اختیار ان کے لب مسکرا اٹھے وہ تھا ہی اتنا دلکش کہ وہ چاہ کر بھی اپنی نظریں اس پر سے ہٹا نا پاتے تھے۔۔۔


    بڑی بڑی سیاہ گہری لہو رنگ آنکھیں ہلکی سی داڑھی اور ان کی فرمائش پر رکھی گئی مونچھیں اسے اتنا جاذب نظر بناتی تھیں کہ دادا سائیں کو خود اپنی ہی نظر لگ جانے کا اندیشہ ہوتا ڈرتے ہوئے انھوں نے نظریں پھیری۔۔۔


    ان کے اس پوتے میں جان بستی تھی انکی وہ اسے اتنا چاہتے تھے کی کوئی حد نہیں وہ اس پر اپنا سب کچھ لٹا دینے کو ہمیشہ تیار رہتے اس کی ایک خواہش پر وہ پورا گاؤں اکھٹا کر لیا کرتے۔۔۔


    بابا سائیں آج تو پنچایت بیٹھنے والی ہے آج آپ عادل کو کہیں جانے کی اجازت مت دیجئے گا۔۔۔


    ازمیر سائیں بھی وہیں ہر موجود تھے اپنے بیٹے کو اس طرح تیار دیکھ وہ اندازہ لگا چکے تھے عادل شکار پر جا رہا تھا تبھی اپنے والد سے مخاطب ہوئے وہ۔۔۔


    خاموش ہو جاؤ ازمیر اس طرح بچے کو ٹوکا نہیں کرتے پنچایت کا کیا ہے کبھی بھی لگ جائے گی خواہ وہ کل یا پرسوں ہو اس وقت ہمارا بچہ شکار پر جانا چاہتا ہے تو اسے وہیں جانے دو۔۔۔۔


    وہ آخری سے اپنے بیٹے کو ٹوک چکے تھے لب بھینچے ازمیر سائیں خاموش ہو گئے دادا سائیں کی حمایت پر عادل کے لب مسکرا دیے وہ ہمیشہ اپنے بیٹے کو ڈپٹ پوتے کا ساتھ دیا کرتے۔۔۔


    ویسے بھی وہ ازمیر سائیں کی کسی بھی بات کو اہمیت نا دیا کرتے جس قدر غلطیاں وہ زندگی میں کر چکے تھے ان کا خمیازہ آج تک سب کو بھگتنا پڑ رہا تھا۔۔۔


    شاہ پور گاؤں میں دو بھائی رہا کرتے نوراں شاہ اور دوسرے سمیر شاہ ، ان دونوں میں بے حد محبت پائی جاتی کبھی انھوں نے الگ ہونے کا نا سوچا پر آنے والے وقت نے ان دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے لا کھڑا کیا۔۔۔


    نوراں شاہ کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ماحد شاہ تھا وہیں سمیر شاہ کے دو بیٹے تھے ایک ازمیر شاہ اور دوسرے شاہ میر شاہ ، ایک ہی گھر میں رہنے کی وجہ سے ان دونوں میں جائیداد کے بٹورے کو لے کر اچھی خاصی جنگ چھڑی رہتی ایسے میں ایک دن ازمیر اور ماحد کی لڑائی ہاتھا پائی میں بدل گئی۔۔۔


    اسی وقت ان لوگوں نے اپنی اپنی جائیداد الگ کر لی اگر کچھ الگ نا ہو سکا تو وہ تھی خاندانی حویلی جس میں وہ سب رہتے نا تو سمیر شاہ اس حویلی کو چھوڑنے کے لیے تیار تھے اور نا ہی نوراں شاہ ، کہنے کو وہ انکی جائیداد کا ایک حصہ تھا جسے وہ بانٹ نہیں سکتے تھے یہی وجہ تھی جو وہ سب ایک ساتھ رہنے پر مجبور تھے کیونکہ اگر کوئی ایک بھی حویلی کو چھوڑ کر چلا جاتا تو دوسرا آسانی سے حویلی پر قبضہ کر سکتا تھا۔۔۔


    بظاہر دنیا میں ایک ہنستا کھیلتا نظر آتا خاندان اصل میں اپنے ہی اندرونی جھگڑوں میں بری طرح بھنسا ہوا تھا ایسے میں باقی کسر ازمیر شاہ اور ماحد نے پوری کر دی تھی ، ازمیر شاہ اپنی پھپھو زاد نسیمہ کی محبت میں گرفتار ہو گیا یہی حال ماحد شاہ کا بھی تھا وہ دونوں ہی اس محبت میں لڑنے مرنے کو تیار تھے۔۔۔


    خاندان میں جھگڑے ہوئے ڈھیروں  لڑائیاں ہوئی اور آخر نتیجہ یہ نکلا کہ پھپھو نے نسیمہ کا رشتہ ازمیر کے لیے قبول کر لیا یہ جانے بغیر کے نسیمہ دل ہی دل میں ماحد سے محبت کرتی ہے ازمیر بھی کوئی بہت محبت نہیں کرتا تھا اس سے لیکن ماحد کو ہرا کر اس نے خود کو منوا لیا تھا یہ ثابت کر دیا تھا کہ وہ ہر لحاظ سے ماحد شاہ سے بہتر ہے۔۔۔


    اس چیز نے ماحد کو بہت تکلیف دی تھی وہ دو سال کے لیے حویلی چھوڑ کر بیرون ملک چلا گیا دو سال کے عرصے بعد جب اس کی واپسی ہوئی جو نسیمہ کی گود میں عادل شاہ تھا۔۔۔


    عادل شاہ ہی اپنے دادا کے جینے کی وجہ تھا وہ اس سے بے انتہا محبت کرتے اسکی خاطر کچھ بھی کرنے کو تیار ہو جاتے وہ ایسے میں ایک دن اسی کی قسم دے کر نسیمہ نے ان سے ازمیر شاہ سے طلاق دلوانے کا مطالبہ کیا یہ قسم ان پر بہت بھاری پڑی محض تین ماہ کا عادل ابھی اتنی سمجھ نہیں رکھتا تھا کہ اسکے سر کی قسم  دلوا کر اسکے دادا سے اتنا بڑا فیصلہ کروایا جائے۔۔۔


    وہ واقف تھے اپنی بیٹے سے معلوم تھا انھیں ازمیر شاہ دوسروں عورتوں میں دلچسپی رکھتا ہے ، اس کا تعلق ڈھیر ساری عورتوں سے ہے یہاں تک کے ڈیرے پر وہ کئی دفعہ اپنے ساتھ بکاؤ عورتوں کو لے کر گیا ہے اسے اپنی بیوی سے کوئی محبت نہیں تھی اسکی وجہ سے وہ ایک معصوم اور با کردار عورت کی زندگی برباد کو رہی تھی۔۔۔


    نسیمہ کا فیصلہ بالکل درست تھا اولاد کی خاطر اپنی زندگی تباہ کر دینا کہاں کی عقلمندی تھی اس نے وعدہ کیا کہ اپنے بیٹے کو خود سے جدا ہرگز نہیں کرے گی اس کے لیے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل عادل شاہ ہی تھا لیکن ماحد شاہ نے اسے سنہرے خواب دیکھا دیے یہ خواب جھوٹے نہیں تھے وہ آج بھی اسے قبول کرنے کو تیار تھا ایک عزت بھری زندگی دینے کو تیار تھا پھر بھلا وہ کیوں ساری عمر ذلت سہتی محض اس لیے کہ اسکی گود میں ایک بیٹا ہے کیا وہ عادل کی خاطر اپنی زندگی تباہ کر دیتی۔۔۔


    آئے روز ازمیر شاہ کی مار کھاتے اس کے دیے طعنے سنتے وہ اکتا چکی تھی اس نے بہت ہمت کر کے یہ فیصلہ کیا جس میں اس نے دو سال وقف کیے آخر اس نے سارے خاندان کے خلاف جا کر ازمیر شاہ سے طلاق لی تھی اسے طلاق دیتے ہوئے ازمیر شاہ نے اتنی گھٹیا اور گری ہوئی باتیں کی جس کی انتہا نہیں ، اس کا خدا گواہ تھا ازمیر کے نکاح میں ہوتے اس نے کبھی ماحد کے متعلق نا سوچا پر جب وہ الزام تراشی کرنے پر آیا تو رکا ہی نہیں مسلسل بکواس کرتا رہا وہ جسے خاموشی سے سنا اس نے۔۔۔


    وہ خود جیسا تھا جیسا اس کا کردار تھا وہی سب اس نے نسیمہ کے خلاف کہا سب کچھ چپ چاپ برداشت کیا اس نے یہ سوچ کر کہ آخری امتحان ہے اس کا ، وہ اپنی حمایت میں کوئی جواب دے کر یہ نہیں چاہتی تھی ازمیر شاہ کو ضد میں آ جائے اور واقعی میں یہ اس کی زندگی کا آخری امتحان ثابت ہوا تھا سارے خاندان کے سامنے ازمیر شاہ نے اسے طلاق دے دی۔۔۔


    عدت پوری ہوتے ہی ماحد شاہ دھوم دھام سے اس کے لیے بارات لے کر آیا نسیمہ کو محبت تو مل گئی اپنی پر لاکھ کوششوں کے باوجود وہ عادل کو نا پا سکی وہ اسی حویلی میں رہ کر صبح شام اسکی آنکھوں کے سامنے رہ کر بھی اپنے بیٹے کو اپنا نا کہہ سکی ازمیر شاہ اس سے یہ حق چھین چکا تھا وہ اسے چھونے پیار کرنے اپنا بیٹا کہنے کا حق گنوا چکی تھی۔۔۔


    طلاق کے دوسرے ہی دن ازمیر شاہ ایک عورت کو بھاگا کر اپنے ساتھ نکاح کیے لے آیا وہ عورت کون تھی کہاں سے آئی تھی کوئی نہیں جانتا تھا ہاں لیکن وہ عادل کی ماں ضرور بن گئی تھی اس میں ہی ازمیر شاہ کی دو بیٹیاں ہوئیں جن سے وہ کوئی محبت نہیں کرتا تھا اسے اپنے خاندان کا ایک اور وارث چاہیے تھا۔۔۔


    دوسری طرف شاہ میر شاہ نے کے ہاں تین بیٹیاں جنم لے چکی تھیں یعنی اب اسکے بیٹے کی کوئی امید نا تھی یعنی وہ اپنی وراثت ختم کر چکا تھا کیونکہ دادا سائیں کا کہنا تھا انکی وراثت انھی کی نسل میں رہے گی بیٹیاں تو پرایا دھن ہوتی ہے وہ ان بیٹوں کو اتنا ہی جائیداد میں حصہ دیں گے جس سے انکی زندگی سنور سکے نا کے اپنی جائیداد میں ان کا بٹوارہ کریں بقول انکے سب کچھ صرف عادل شاہ کا تھا۔۔۔


    شاہ میر شاہ کی خواہش تھی کسی طرح انکی تینوں بیٹوں میں ہی کوئی ایک عادل شاہ کو اپنا دیوانہ کر دے پر عادل کی نگاہوں میں ایسا کوئی جذبہ ڈھونڈنے سے بھی نا ملتا وہیں نسیمہ اور ماحد کے دو بچے تھے۔۔۔


    مرتسم اور لائبہ جنہوں نے انکی زندگی کو بے حد حسین بنا دیا تھا وہ بہت خوش تھے اپنی زندگی میں جہاں سمیر شاہ کی جائیداد کا وارث عادل شاہ تھا وہیں نوراں شاہ کی جائیداد کا مالک اب انکا پوتا مرتسم شاہ تھا ، مسئلہ تھا تو پنچایت کا جس طرح سمیر شاہ اپنے پوتے عادل کو پنچایت میں سرپنچ بنانا چاہتے تھے بالکل اسی طرح نوراں شاہ بھی اپنے پوتے کے لیے یہی خواہش رکھتے جو یقیناً آگے جا کر انکے لیے مسئلہ کھڑا کرتی۔۔۔۔


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    تقریباً دو بجے کا وقت تھا وہ گہری نیند کی آغوش میں تھا جب اسے اپنے کمرے میں کسی اور کی بھی موجودگی محسوس ہوئی اس نے آہستہ سے آنکھیں کھول سائیڈ ٹیبل کے لیمپ کو اون کیا سامنے اسے نمرہ کھڑی ملی تھی جھٹ سے اٹھ بیٹھا وہ۔۔۔۔


    تم آدھی رات کو یہاں کیا کر رہی ہو تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا نمرہ کس کی اجازت سے میرے کمرے میں قدم رکھا تم نے کچھ جانتی بھی ہو اگر اس وقت کسی نے تمہیں میرے کمرے میں دیکھ لیا کتنا بڑا ہنگامہ ہو سکتا ہے چاچو سائیں تو کھڑے کھڑے گولی مار دیں گے تمہیں۔۔۔۔


    وہ غصے سے دھاڑا تھا۔۔۔


    معلوم ہے مجھے وہ گولی مار دیں گے مجھے پھر بھی میں تمہارے پاس آ گئی بے شک آج وہ مجھے گولی نا بھی ماریں لیکن کل وہ سولی پر ضرور چڑھانے والے ہیں مجھے عادل مجھے کل دیکھنے کے لیے کچھ لوگ آنے والے ہیں میں اور کسی سے شادی نہیں کر سکتی میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں ، آپ کے علاؤہ اگر میری زندگی میں کوئی اور آیا تو میں خود کو پھانسی لگا خود کشی کر لوں گی ، چاہے کچھ بھی ہو جائے عادل میں کسی اور سے شادی ہرگز نہیں کروں گی آپکے علاؤہ میں اپنی زندگی کا مالک اور کسی کو نہیں بننے دے سکتی۔۔۔


    وہ جذباتی ہو رہی تھی اسے دیکھ عادل نے آنکھیں مینچ اپنا سر تھام لیا۔۔۔


    میری بات سنو نمرہ میں نے تمہیں کبھی بھی اس نظر سے نہیں دیکھا تم ہمیشہ میرے لیے میری چھوٹی بہن رہی ہو نا آج نا ہی آگے کبھی میں تمہارے بارے میں ایسا سوچ سکتا ہوں بہتر یہی ہے تم جاؤ میرے کمرے سے فضول میں تمہارا اور میرا نام خراب ہو گا چاچو سائیں نے بہت سوچ سمجھ کر ہی تمہاری شادی کا فیصلہ کیا ہو گا میرے خیال میں اپنی فصول ضد کو چھوڑ کر تم انکے فیصلے کی عزت کیے اسے مان لو یہ وقت ٹھیک نہیں مزید باتیں کرنے کا فلحال یہی مناسب ہے تم اپنے کمرے میں چلی جاؤ۔۔۔۔


    اپنے غصے پر بندھ باندھے وہ رسانیت سے اسے سمجھا رہا تھا وہ ہرگز نہیں چاہتا تھا کسی بھی طرح کی بدنامی ان دونوں کے کرداروں کا حصہ بنے ، کل ایک بہت بڑی دعوت کا انتظام کیا گیا تھا  ان لوگوں کے لیے جو نمرہ کو دیکھنے حویلی آ رہے تھے واقعی میں یہ ایک اچھا رشتہ تھا لڑکا اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا نمرہ اسکے ہمراہ ایک بہت اچھی زندگی گزار سکتی تھی اچھا خاصا پڑھا لکھا قابل انسان تھا وہ۔۔۔۔


    شاہ میر شاہ کو نمرہ کی طرف سے عادل کی بھی کوئی خوشی خبری سننے کو نہیں مل رہی تھی اسی لیے وہ وقت پر یہ فیصلہ کرنا چاہتے تھے جو کہ بالکل درست تھا پر نمرہ کے تو دماغ میں کچھ اور ہی چل رہا تھا وہ عادل سے محبت کی دعویدار تھی اسی سے شادی کرنی کی خواہشمند تھی وہ ، جبکہ عادل کے نزدیک ان سب چیزوں کی کوئی اہمیت نا تھی اسکے بار بار سمجھانے پر بھی جب نمرہ کمرے سے نا گئی مجبوراً عادل کو اسے بازو سے پکڑ اپنے کمرے سے باہر نکالا پڑا۔۔۔


    وہ روتی رہی عادل نے اس کی ایک نا سنتے کسی بھی بات کا اثر نا لیتے دروازہ اسکے منہ پر بند کر دیا وہ خاموشی سے واپسی کو پلٹتی اماں سائیں کو سامنے کھڑے دیکھ چکی تھی جن کے لبوں پر طنزیہ مسکراہٹ تھی۔۔۔۔


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    تم آدھی رات کو عادل کے کمرے کے باہر کیا کر رہی ہو نمرہ یہ کوئی وقت ہے کیا اس سے ملنے کا ، کل تمہارے رشتے کے لیے لوگ آ رہے ہیں یہاں تم رات گئے عادل سے ملاقاتیں کر رہی ہو ، اسکا کہنا ہے تم اسکی بہنوں جیسی ہو مجھے یہ بتاؤ یہاں کونسا بھائی چارہ نبھایا جا رہا ہے اس وقت اسکے کمرے میں۔۔۔


    ان کا لہجہ کافی تلخ تھا۔۔۔


    وہ بڑی اماں سائیں دراصل۔۔۔۔


    وہ آنسوؤں سے بھیگی آواز میں ٹھیک سے کچھ بول بھی نہیں پا رہی تھی یہاں لمحوں میں تماشا بن سکتا تھا اور وہ تو چاہتی ہی یہی تھی کوئی تماشا بن جائے تاکہ عادل مجبور ہو جائے اسے اپنے نکاح میں لینے کی خاطر۔۔۔


    ڈونٹ وری بیٹا میں کسی کو کچھ نہیں بتاؤں گی تمہیں پریشان ہونے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں جا کر اپنے کمرے میں آرام کرو شادی سے پہلے ایسی ننھی ننھی نادانیاں ہو ہی جاتی ہیں میری طرف سے بالکل بے فکر رہو یہ بات میرے اور تمہارے درمیان رہے گی۔۔۔


    وہ مسکراتے ہوئے بولی نمرہ انھیں دیکھ حیران رہ گئی یہ عورت اس کے کسی کام کی نہیں تھی وہ خاموش سے پلٹ کر اپنے کمرے میں چلی گئی کاش آج بڑی اماں سائیں چلا چلا کر شور مچاتی سب کو اکھٹا کر لیتی یقیناً آج اسکی زندگی بالکل سیٹ ہو جاتی پر وہ ایسا کیوں کرتیں انھیں تو عادل کی دلہن کے روپ میں اپنی بھتیجی لانی تھی وہ کیوں اسکے لیے راہ آسان کرتی افسوس سے آہ بھر کر رہ گئی وہ۔۔۔۔


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 


    بابا میں گاؤں میں نہیں جانا چاہتی آپ کچھ کریں پلیز درخواست لکھ کر بھیجیں ہو سکتا ہے وہ آپکا ٹرانسفر کینسل کر دیں پلیز بابا سمجھنے کی کوشش کریں ہم گاؤں میں کیسے رہ سکتے ہیں۔۔۔


    وہ انکے پاس بیٹھی مسلسل بول رہی تھی اس کے بابا ایک سکول میں ٹیچر تھے آج انکا ٹرانسفر ہو رہا تھا وہ اس سکول سے دوسرے سکول میں ٹرانسفر کیے جا رہے تھے مایوسی والی بات یہ تھی وہ سکول گاؤں میں قیام پذیر تھا اس گاؤں کے بارے میں کچھ اچھے واقعات نہیں سننے کو ملے تھے اسے اس گاؤں میں آج بھی پرانا نظام چلایا جاتا جیسے آج بھی وہی پرانا جاہلانہ دور موجود ہو ، بڑی حویلی کے حکمران کو پورے گاؤں کے فیصلے لینے کا حق حاصل تھا وہی ہر چھوٹے سے چھوٹا فیصلہ اپنی مرضی سے سنایا کرتے۔۔۔۔


    مہزل اس گاؤں میں نہیں جانا چاہتی تھی وہ شہر کی پلی بڑھی لڑکی تھی نا جانے کیسے گاؤں میں ایڈجسٹ کرنا پڑتا اسے تو سوچ کر ہی گھبراہٹ ہو رہی تھی ، سب سے بڑا مسلۂ پانی کی قلت کا تھا نا ہی وہاں گیس پہنچائی گئی بجلی تک کا کوئی انتظام نہیں تھا ، بہت سے انفرمیشن اکھٹی کر رکھی تھی اس نے اس گاؤں کے متعلق۔۔۔


    آج کل اپنا گریجویشن کمپلیٹ کر کے وہ فارغ گھر میں ہی موجود تھی ، انکے گھر میں صرف دو ہی افراد تھے ایک وہ اور ایک اسکے پیارے بابا بقول مہزل کے وہ دونوں کافی تھے ایک دوسرے کے لیے۔۔۔


    بیٹا اب گورنمنٹ کی طرف سے آرڈر پاس ہوئے ہیں تاکہ اس گاؤں میں بھی ترقی آئے بچے پڑھ لکھ سکیں ، میرے ساتھ اور بھی بہت سے لوگوں کا ٹرانسفر کیا گیا ہے جانا تو ہر حال میں پڑے گا ، تم کیوں فکر کرتی ہو وہاں کے رہائشی بھی تو گزارا کرتے ہیں ہم بھی ایڈجسٹ ہو جائیں گے اصل میں اس گاؤں کے بارے میں تو ادھر جا کر معلوم چلے گا ، میں تو خود پہلی دفعہ جا رہا ہوں کسی گاؤں میں زیادہ تو کچھ کہہ نہیں سکتا نا ہی کوئی خوش فہمی ہے مجھے ، ہو بھی سکتا ہے جیسا تم نقشہ کھینچ رہی ہو ویسا ہی اصلیت میں اس گاؤں کا ماحول ہو ، لیکن تم بھی سوچو جس گاؤں میں لڑکیوں کے لیے اتنا بڑا سکول موجود ہے وہاں کے انتظامات اتنے بھی خراب نہیں ہو سکتے باقی ادھر جا کر سب پتہ چل جائے گا کیا سسٹم ہے ادھر کا ، تم زیادہ مت سوچو اگر وہاں کے ماحول ہمارے مطابق نا ہوا تم ادھر کنفرٹیبل نا ہوئی تو میں تمہیں یہیں شیر کے ہوسٹل میں شفٹ کروا دوں گا تم یہیں سے یونیورسٹی جوائن کر لینا تب تک میں گاؤں کا ماحول اور اس گھر کو کسی حد تک ٹھیک کر دوں گا تم بھی اپنی پڑھائی مکمل کر لینا تاکہ پھر میں تمہاری شادی دھوم دھام سے کروا سکوں۔۔۔۔


    او ہو بابا جان آپ پھر سے شادی کے چکر میں پڑ گئے کیوں اتنا آگے تک سوچتے ہیں آپ ، میں بول چکی ہوں آپکو مجھے نہیں کرنی شادی وادی ، مجھے ہمیشہ آپکے پاس رہنا ہے اپنے بابا کے ساتھ رہنا ہے خود سوچیں اگر میں آپکے ساتھ ملیں رہوں گی تو آپکا سسٹم کیسے سدھرے گا ، اچھے سے جانتی ہوں میں آپ میرے بغیر نہیں رہ سکتے میں آپکو چھوڑ کر کبھی نہیں جاؤں گی ، نکال دیں یہ بات اپنے دماغ سے۔۔۔۔


    وہ انکے گلے میں بانہیں ڈالے لاڈ جتانے لگی وہ اسکی بات پر مسکرا دیے تھے یہ ساری باتیں تو صرف کہنے کی تھیں بیٹیاں تو ہوتی ہی پرایا دھن ہیں آج نہیں تو کل مہزل کو بھی شادی کیے رخصت ہونا ہی تھا پر وہ اس سے کوئی بحث کیے یا ایسی باتیں کر مہزل کو مایوس اور اداس نسلیں کرنا چاہتے تھے تبھی خاموشی رہنے میں ہی عافیت جانی انھوں نے۔۔۔۔۔۔


    نمرہ نے اپنے ہاتھ کی نس کاٹ لی ہے۔۔۔۔


    وہ لوگ اسے پسند کیے جا چکے تھے مرجھائے ہوئے چہرے کے ساتھ وہ اپنے کمرے میں چلی گئی صبح سے شام ہو گئی تھی پر وہ کمرے سے باہر نا نکلی سبھی کو پریشانی نے آن گھیرا کی آخر وہ ابھی تک کمرے میں موجود کیوں ہے باہر کیوں نہیں آ رہی سبھی اسکی سرخ بھیگی آنکھوں اور افسردہ چہرے سے اندازہ لگا چکے تھے کہ وہ اس رشتے سے خوش نہیں ہے پر اس طرح کمرے میں بند ہو جانا بھلا کہاں کی عقلمندی تھی ، اسکی ماں فکرمندی سے نمرہ کو دیکھنے جب اسکے کمرے میں گئیں تو اسے بیڈ پر بے ہوش پایا جبکہ بیڈ کی چادر خون سے لت پت تھی۔۔۔۔۔


    وہ بھاگتی ہوئی نیچے آئیں اور سب کو بتایا نمرہ اپنی کلائی کاٹ چکی تھی یہ خبر سبھی کے لیے صدمے سے کم ہرگز نا تھی وہ اسے لیے فوراً ہسپتال پہنچے شادی سے چند دن پہلے اس طرح کی غلطی  اسے بہت سے لوگوں کی نظروں میں مشکوک ثابت کیے پستی میں گرا سکتی تھی ، ڈاکٹر نے وقت پر علاج کرتے نمرہ کی جان تو بچا لی پر سمیر شاہ نے اسکی شکل دیکھنے سے انکار کر دیا وہیں اسکا باپ بھی بنا اس سے ملے واپس گھر چلا گیا ، اس وقت ہسپتال میں صرف اور صرف اسکی ماں اور عادل شاہ موجود تھا۔۔۔


    عادل مجھے سمجھ نہیں آ رہا اس نے ایسا کیوں کیا اس نے تو کبھی اپنے بابا سائیں کی نا فرمانی نہیں کی پھر وہ اب ایسا کیسے کر سکتی ہے آخر کیوں اس نے اتنا بڑا قدم اٹھایا کیوں اپنے خاندان کی عزت اچھالی ، اگر یہ بات اسکے سسرال والوں میں پہنچ گئی تو رشتہ جڑنے سے پہلے ہی ٹوٹ جائے گا وہ لوگ ایک ہفتے میں شادی کرنا چاہتے ہیں ، اب نمرہ کی ایسی حالت ، مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا آخر کیوں میری ہی بیٹی سر میں خاک ڈال رہی ہے میرے۔۔۔۔


    وہ روتے ہوئے عادل کے سینے سے لگ گئی تھیں۔۔۔


    چچی جان آپ فکر نا کریں کچھ بھی غلط نہیں ہو گا نمرہ نے جو غلطی کی یقیناً بہت بڑی ہے مگر آپ بے فکر ہو جائیں اسکی شادی پر ہوئی بھی برا اثر نہیں پڑے گا یہ وعدہ ہے میرا آپ سے۔۔۔۔


    وہ انھیں رسانیت سے سمجھا رہا تھا کچھ دیر بعد ڈاکٹر نے انھیں آ کر بتایا نمرہ کو ہوش آ چکا ہے۔۔۔


    اچھا چچی میں نمرہ سے بات کر کے آتا ہوں آپ پرسکون ہو جائیں بالکل فجر نہیں کرنی نمرہ کی شادی وہیں ہو گی جہاں آپ سب چاہتے ہیں اور وہ اس شادی سے انکار ہرگز نہیں کرے گی۔۔۔۔


    کچھ سوچتا وہ انھیں یقین دلاتا نمرہ کے کمرے کی جانب بڑھا چچی جان کی ساری امیدیں اب صرف عادل کے ساتھ جڑی تھیں۔۔۔۔


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اب کیسی طبعیت ہے تمہاری زیادہ درد تو نہیں ہو رہا۔۔۔


    وہ اسکے بیڈ کے قریب رکھی کرسی پر بیٹھتا سنجیدگی سے سوال کر گیا اسے دیکھتے ہی نمرہ نے رونا شروع کر دیا۔۔۔۔


    عادل سائیں میں آپ سے بہت محبت کرتی ہوں پلیز مجھے اپنا لیں ، میں آپکے علاوہ اور کسی کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتی اگر ممکن شادی کروں گی تو صرف اور صرف اپنے ساتھ ، آپکے سوا میری زندگی میں کوئی نہیں آ سکتا اور اگر کوئی آیا تو میں خودکشی کیے خود کی جان لے لوں گی پر اس سے نکاح کبھی نہیں کروں گی ، چاہے کچھ بھی ہو جائے میں آپکے سوا کسی اور سے شادی کبھی نہیں کروں گی۔۔۔۔


    وہ بری طرح  بلکتے ہوئے بولی۔۔۔


    ٹھیک ہے اگر تم یہ شادی نہیں کرنا چاہتی تو مت کرو ہوئی تمہیں فورس نہیں کرے گا کوئی تمہاری زبردستی شادی نہیں کروائے گا مگر یہ بھی مت سوچنا میں کبھی تم سے شادی کروں گا ، تم میرے نکاح میں آؤ گی تم میری محبت نہیں ہو نمرہ نا آج اور نا ہی کبھی آنے والے کل میں ،میں تمہیں پسند نہیں کرتا اور نا کبھی تم میری پسند بنو گی ، میرے نکاح میں وہی لڑکی آئے گی جو محبت ہو گی میری ، جسے میں چاہوں گا ، اپنی زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ میں کسی سمجھوتے کی نظر ہرگز نہیں کروں گا ، اگر مجبوری میں میں تم سے شادی کر بھی لوں تب بھی آنے والے کل میں میں اپنی مرضی سے شادی ضرور کروں گا۔۔۔۔


    کیونکہ نا تو تم میری محبت ہو اور نا ہی کبھی میری چاہت بن سکتی ہو تمہیں مرنے سے بچانے کے لیے شاید میں تم پر یہ احسان کر بھی دوں لیکن میری نظر میں تمہاری کوئی اہمیت نہیں ہو گی ، وہیں وہ شخص جس سے تمہاری شادی ہو رہی ہے وہ خوش اخلاق خوش شکل ہونے کے ساتھ کافی دولت مند بھی ہے وہ تمہاری ہر خواہش پوری کر سکتا ہے تم سے پہلے اس کی زندگی میں کوئی لڑکی نہیں تھی یعنی اسکے تمام تر سچے جذبات صرف تمہارے لیے ہوں گے ، پھر بھی اگر تم اسے چھوڑ مجھ جیسے انسان کو اپنی زندگی کے تمام اختیارات دینا چاہتی ہو تو شوق سے دو۔۔۔۔


    آج تم مجھ سے شادی کرنے کے لیے مر رہی ہو کل تو نادیہ ایسا کرے گی پرسوں شمائلہ اور اس سے اگلے دن نائمہ مجھے پانے کے لیے ہر حد پار کرے گی تو کیا میں ان سب سے بھی شادی کر لوں ، ہر گز نہیں میں اپنی زندگی کو سمجھوتوں کی نذر ہوتے برداشت نہیں کروں گا جسے تم محبت کہہ رہی ہو وہ صرف اٹریکش ہے نمرہ ، میرے علاوہ تم نے کبھی کسی اور مرد پر دھیان نہیں دیا کیونکہ شاید ہمارے خاندان نے تمہیں ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی ، ہمیشہ چارو دیوار میں رہنے کی وجہ سے تمہیں جو مرد نظر آیا تک اسی سے محبت کر بیٹھی حالانکہ در حقیقت تم مجھ سے محبت نہیں کرتی۔۔۔۔


    یہ صرف ایک ضد ہے جسے تم پانا چاہتی ہو ، آج گھر واپس لوٹ کر میں سب سے کہہ دوں گا کہ میں تمہیں اپنے نکاح میں لے رہا ہوں پر یاد رکھنا یہ نکاح صرف نام کا نکاح ہو گا اس سے زیادہ  مجھ سے کوئی امید مت رکھنا ،تمہاری زندگی خوشحال بالکل نہیں ہو گی کیونکہ میری نظر میں اس نکاح کی کوئی ویلو نہیں ہو گی ، ایسا صرف میں اپنے چاچا سائیں کی عزت بچانے کی خاطر کروں گا انکی پگڑی کا تم نے تو خیال نا کیا پر مجھے کرنا پڑے گا اور اگر انکی خاطر مجھے پوری زندگی تمہیں اپنے نکاح میں رکھنا پڑا تو میں ایسا کروں گا ، کل تمہیں یہاں سے ڈسچارج کیا جائے گا تب تک کا وقت ہے تمہارے پاس سوچنے کے لیے۔۔۔۔


    ایک طرف ابرار ہے جو تمہیں ایک بہترین زندگی دے سکتا ہے آزادنہ ماحول دے سکتا ہے تمہاری ہر خواہش پوری کرے گا وہ ، وہیں دوسری طرف میں ہوں جس سے تم محبت کی دعویدار ہو لیکن میرے ساتھ تمہاری زندگی قید سے بدتر ہو گی ، نکاح نامے پر یہ شرائط ہوں گی کہ میں جب چاہوں دوسرا نکاح کر سکتا ہوں تم سے میرا تعلق ایک سمجھوتہ ہو گا ، سوچ سمجھ کر فیصلہ لینا یا تو آزادی یا پھر عمر بھر کی قید۔۔۔۔


    وہ اپنی بات مکمل کرتا کمرے سے باہر نکل گیا نمرہ کتنی ہی دیر آنسو بہاتی اسکی باتوں کو سوچتی رہی۔۔۔۔


    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


    اگلے دن گھر میں جیسے ایک پنچایت لگی ہوئی تھی سب یہ جاننا چاہتے تھے کہ آخر کیا وجہ تھی جو اس نے اتنا بڑا فیصلہ لیا آخر کیوں نمرہ اپنی زندگی ختم کرنے جا رہی تھی کیا وہ کسی کو پسند کرتی تھی جس کی خبر اس کے گھر والوں میں سے کسی کو کانوں کان نہیں ہوئی یا پھر وجہ کوئی اور تھی عادل نے صاف الفاظ میں کہا تھا اسے کہ گھر والوں کے سامنے وہ اس کا نام لے لے وہ اس سے ابھی نکاح کرنے کے لیے تیار تھا۔۔۔۔


    وہ عادل سائیں کے نکاح میں آ سکتی تھی وہ اس سے آج ہی شادی کر لیتا پر نمرہ کو خود پر اتنا یقین نہیں تھا کہ وہ کبھی عادل شاہ کو اپنی طرف مائل کر پائے گی اس کی ماں ایک انتہائی خوبصورت عورت ہونے کے باوجود اسکے باپ کو کبھی دوسری عورتوں کے پاس جانے سے روک نا سکی تھی تو اسکی کیا اوقات تھی عادل تو صاف الفاظ میں بتا چکا تھا اسے کہ وہ نکاح کے بعد اسے سوائے قید کے اور کچھ نہیں دے گا پوری عمر اسے ایک جھوٹھی زندگی جینی پڑتی جھوٹی خوشیوں پر خوش ہونا پڑتا عادل اسے کبھی بیوی ہونے کا حق نہیں دے گا کبھی اسے بیوی کے روپ میں قبول نہیں کرے گا وہ جانتی تھی اس ضدی مغرور شہزادے کو جو اپنی کہی بات ہر تا عمر قائم رہتا۔۔۔۔


    بابا سائیں یہ حرکت میں نے جان بوجھ کر نہیں کی میرا دماغ اتنا خراب نہیں ہے جو میں خودکشی کرنے کا سوچوں ایسی حرکت کروں مجھے خود نہیں معلوم کیسے وہ چھری میری کلائی کو کاٹ کر زخمی کر گئی مجھے تو یہ سوچ کر اتنا خوف محسوس ہو رہا ہے کہ میں موت کے منہ سے واپس آئی ہوں ، بہت ڈر لگ رہا ہے مجھے یہ سوچ کر کہ اگر میں مر جاتی تو کیا ہوتا مجھے اس رشتے سے کوئی اعتراض نہیں ابرار سائیں قبول ہیں میں اس شادی کے لیے بالکل تیار ہوں میں تو اپنی رضامندی بھی اماں سائیں کو بتا چکی ہوں پھر بھلا ایسی فضول حرکت کیوں کروں گی میں بھری غلطی سے میرے کلائی پر لگی تھی ، میں سچ کہہ رہی ہوں میرا یقین کریں بابا سائیں۔۔۔۔


    وہیں کھڑے کھڑے وہ سراسر جھوٹ بولتی بری طرح رونے لگی سمیر شاہ نے اسے اپنے قریب بلاتے محبت سے سینے کے ساتھ لگایا تھا یہاں بیٹھا کوئی بھی شخص اتنا بے وقوف ہرگز نہیں تھا جو اسکے جھوٹ کو پکڑ نا سکتا لیکن جب وہ خود ہی ہر چیز کو پیچھے پھینک آگے بڑھنے کو تیار تھی تو فضول میں ان باتوں کو کریدنے کا کوئی مطلب نہیں تھا۔۔۔


    سمیر شاہ نے شادی کی تیاریاں کرنے کا حکم دے دیا ابرار کے گھر والے ایک ہفتے کے اندر نکاح چاہتے تھے جس پر کسی کو کوئی اعتراض نہیں تھا حویلی میں یہ بات پھیلا دی گئی تھی کہ کانچ کا ٹکڑا ٹوٹنے کی وجہ سے نمرہ کی کلائی پر کافی گہرا زخم ہو گیا جس سے اسکی بازو کی نس کٹ گئی ، اس کا فائیدہ یہ ہوا لوگوں کی چلتی زبانیں بند ہو گئیں دو ہی دنوں میں پوری حویلی کو دلہن کی طرح سجا دیا گیا یہ انکے خاندان کی پہلی شادی تھی اسی وجہ سے خصوصی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔۔۔۔


    دور دور سے مشہور سنگرز بلائے گئے تھے شادی سے تین دن پہلے ہر رات پورے گاؤں میں ان سنگرز کی آوازیں سنائی دیتی یہ اس گاؤں میں ہونے والی پہلی سب سے شاندار شادی تھی جس میں پورا گاؤں شریک ہو رہا تھا اتنا ہی نہیں گاؤں کی سڑک تک جاتی حویلی کی راہداری لائٹوں اور پھولوں کی سجا دی گئی تھی تاکہ ہر آنے جانے والے کو معلوم ہو سکے شاہ حویلی میں شادی ہو رہی ہے۔۔۔۔


    ہر شخص اس شادی میں انوایٹ کیا گیا تھا عادل شاہ بری طرح کاموں میں الجھا ہوا تھا اسے نمرہ سے اس عقلمندی کی امید تو نہیں تھی یقینًا اس نے اپنی زندگی کا بالکل صحیح فیصلہ کیا تھا وہ بھی یہی چاہتا تھا نمرہ اسکی امید میں اپنی زندگی برباد کرنے کی بجائے آگے بڑھے بہتر چنے اور آج نمرہ نے صحیح فیصلہ کر اسے بہت پرسکون کر دیا تھا۔۔۔۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    Yar E Saien By Nimra Tariq Complete Novel

    Follow Our Whatsapp Group And Read Free Most Romantic Novels All Episodes 

    Click And Follow 



    No comments

    Post Top Ad

    Post Bottom Ad

    ad728