Be Khabar Nikkah Complete Free Novel
Below And Read Complete Novel
اندھیرا... مکمل اندھیرا تھا۔
ہانیہ نے آنکھیں کھولنے کی کوشش کی، لیکن پلکوں پر بوجھ تھا، جیسے کئی راتوں کی نیند ایک ساتھ سو لی ہو۔ اس کے سر میں ہلکا سا درد تھا اور کمرے میں مدھم سی روشنی۔ کچھ اجنبی سا ماحول تھا، اجنبی سا بستر، اور اس کے اپنے بدن پر وہ سفید جوڑا جو شادی کے دن پہنا جاتا ہے۔
"یہ کہاں ہوں میں؟"
اس نے چونک کر ارد گرد دیکھا، دروازہ بند تھا، کمرہ سجا ہوا تھا، اور سامنے میز پر مٹھائی کا ڈبہ پڑا تھا — شادی کی مٹھائی۔
ایک لمحے کو اس کا دل زور زور سے دھڑکا۔
"کیا… میری شادی ہو گئی؟"
دروازہ کھلا…
ایک لمبا، گھمبیر سا مرد اندر آیا۔ آنکھوں میں اجنبیت اور چہرے پر سختی۔
"جاگ گئی؟"
وہ بولا، جیسے کسی قیدی سے بات کی جا رہی ہو۔
"آپ کون ہیں؟ یہ سب کیا ہے؟"
ہانیہ کی آواز کپکپا گئی۔
"تمہارا شوہر۔"
ایک لفظ، اور ہانیہ کے حواس جواب دے گئے۔
"نہیں… یہ جھوٹ ہے… مجھے کچھ یاد نہیں… میں نے شادی نہیں کی!"
وہ چیخی۔
"تمہیں یاد دلانے کے لیے بہت وقت ہے، لیکن ایک بات یاد رکھنا… تمہیں اس کمرے سے بغیر میری اجازت کے باہر نکلنے کا حق نہیں۔"
وہ آگے بڑھا، اور ہانیہ پیچھے ہٹتی گئی… دیوار سے جا لگی۔
"یہ نکاح تمہاری مرضی کے بغیر بھی ہو سکتا ہے، اور تمہاری زندگی اب میری مرضی سے چلے گی۔"
ہانیہ دیوار سے لگی کانپ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں خوف، بے یقینی، اور دل میں ایک سوال...
"آخر یہ سب میرے ساتھ کیوں ہو رہا ہے؟"
سامنے کھڑا وہ مرد... اس کی نظریں، اس کا لہجہ، سب کچھ اجنبی اور سخت۔
وہ ایک قدم اور آگے بڑھا۔
ہانیہ فوراً پلنگ کے کونے پر چڑھ گئی جیسے وہ جان بچا رہی ہو۔
"ڈرو مت، میں تمہیں ابھی کچھ نہیں کہوں گا..."
اُس نے سرد لہجے میں کہا۔
"لیکن تمہیں وقت کے ساتھ سب کچھ یاد آ جائے گا، ہانیہ!"
"میں نے کچھ نہیں کیا..."
ہانیہ کے لب کپکپائے۔
وہ مرد اس کے پاس بیٹھا، اور آہستہ سے اس کا چہرہ اپنے ہاتھ سے اوپر کیا۔
"یہی تو تمہاری خوبی ہے، ہانیہ... تم کچھ کرتی ہو، اور پھر معصوم بن جاتی ہو۔ مگر اب تم میرے نکاح میں ہو۔ اب تمہاری معصومیت مجھ پر اثر نہیں کرے گی۔"
ہانیہ کی پلکیں بھیگ گئیں۔
وہ خود سے سوال کر رہی تھی:
"کیا واقعی میں کسی کی زندگی برباد کر چکی ہوں؟"
Flashback
ایک ہسپتال کا منظر، ہانیہ سفید کوٹ میں نرسنگ کی ٹریننگ پر تھی۔
ایک مریض، شدید زخمی حالت میں آیا تھا...
اس نے ہانیہ کا ہاتھ پکڑا تھا اور کچھ کہنا چاہا، مگر بول نہ سکا۔
اُسی لمحے پیچھے سے کوئی چیخا تھا:
"میرے بھائی کو بچاؤ! پلیز!"
ہانیہ نے نظریں اٹھائیں، وہی آنکھیں... وہی شخص!
واپس حال میں
"یاد آیا؟"
اُس نے ہانیہ کے قریب جھک کر کہا۔
"میرے بھائی کو تمہارے علاج نے مار دیا، اور اب تم میری زندگی کا قرض ہو۔"
ہانیہ کے لبوں سے صرف ایک سسکی نکلی۔
"میں… میں ڈاکٹر نہیں تھی… میں تو صرف ٹریننگ پر تھی… میں نے کچھ نہیں کیا!"
وہ کھڑا ہوا، گہرے انداز میں اسے دیکھتا رہا۔
"ثبوت تمہارے حق میں ہیں یا خلاف، یہ وقت بتائے گا۔ فی الحال… تم میری بیوی ہو، اور میں چاہوں تو—"
اُس نے جملہ ادھورا چھوڑا اور مسکرا کر کمرے سے باہر چلا گیا۔
کمرے میں خاموشی چھا گئی۔
ہانیہ کا دل کانپ رہا تھا۔ وہ سمجھ چکی تھی… یہ صرف ایک نکاح نہیں، بلکہ انتقام کا کھیل ہے۔
مگر وہ بھی کمزور نہیں تھی...
"میں سچ ثابت کر کے رہوں گی... اور اگر یہ شخص میری زندگی کا امتحان ہے، تو میں یہ جنگ لڑوں گی — اپنی عزت، اپنی حقیقت اور اپنے دل کے لیے!"
رات آہستہ آہستہ اپنے سناٹے گہرا رہی تھی۔ باہر اندھیرا پھیلا ہوا تھا، مگر ہانیہ کے دل میں جو طوفان تھا، وہ ہر خاموشی کو چیر کر رکھ رہا تھا۔
کمرہ وہی تھا — گلابوں سے سجا ہوا، نرم سفید روشنی، بند دروازہ… مگر اب یہ کمرہ اسے قید خانہ لگ رہا تھا۔ اور قید کرنے والا؟ وہ شخص… اُس کا نکاحی شوہر… جس کا نام تک وہ نہیں جانتی تھی۔
وہ شخص جس کی آنکھوں میں نفرت تھی، اور لہجے میں زخمی ہونے کا غرور۔
ہانیہ آئینے کے سامنے کھڑی تھی۔ اپنے چہرے کو دیکھتے ہوئے اس نے خود سے سوال کیا:
"کیا میں اتنی بری ہوں؟"
"کیا واقعی کسی کی موت کی ذمہ دار ہوں؟"
"کیا میں کسی کی سزا بن گئی ہوں… یا کسی کا امتحان؟"
آنکھوں سے خاموش آنسو بہہ رہے تھے۔ ماتھے پر بندیا اب بوجھ لگ رہی تھی، زیورات قید کی زنجیروں جیسے محسوس ہو رہے تھے۔
اس نے سب کچھ اتار کر سائڈ پر رکھ دیا… یہاں تک کہ وہ سفید چادر بھی، جسے شادی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
دروازہ آہستہ سے کھلا۔
وہی مرد… اندر آیا۔ ہاتھ میں ایک پیالی چائے کی تھی۔
"چائے پی لو، سردی ہو رہی ہے۔"
ہانیہ نے حیرت سے دیکھا، یہ نرمی؟
"تمہیں کیا فرق پڑتا ہے کہ مجھے سردی ہو رہی ہے یا نہیں؟"
اس نے خشک لہجے میں کہا۔
مرد آہستہ سے مسکرایا، ایک تھکن بھری مسکراہٹ۔
"فرق پڑتا ہے… اسی لیے تو یہاں ہوں۔"
وہ پاس آیا، چائے کا کپ اس کے سامنے رکھا، اور بیڈ کے کنارے بیٹھ گیا۔
"تمہارے ذہن میں بہت سے سوال ہوں گے۔"
"ایک ایک کر کے سب کے جواب دوں گا… مگر ایک شرط پر۔"
ہانیہ کا دل دھڑکا۔
"کون سی شرط؟"
"تم مجھے سچ بتاؤ گی — جو تمہیں یاد ہے، جو تمہیں نہیں… سب کچھ۔"
"میں نے تمہارے بھائی کو نہیں مارا!"
ہانیہ کی آنکھوں میں نمی چمکنے لگی۔
"میں صرف ایک ٹرینی نرس تھی… اُس دن میری ڈیوٹی تھی، مگر میں نے صرف اتنا کیا جتنا سینئر نرس نے کہا… وہ مریض پہلے ہی بہت نازک حالت میں تھا…"
مرد کی مٹھیاں سخت ہو گئیں۔
"تم چاہے جتنا انکار کرو، مگر میرے بھائی کی آخری نگاہیں تم پر تھیں… اس کی آخری انگلی تمہاری طرف اشارہ کر رہی تھی!"
خاموشی چھا گئی…
بس دل کی دھڑکنیں تھیں، سانسوں کی سسکیاں تھیں… اور ایک عجیب سا لمحہ۔
اچانک، وہ اٹھا… آہستہ سے اُس کے قریب آیا۔
ہانیہ پیچھے ہٹنے لگی، مگر اس نے صرف اس کے کندھے پر چادر ڈال دی۔
"میں چاہتا تو… تمہیں پہلے دن سے اپنا بنا لیتا۔"
"مگر یہ جنگ صرف جسم کی نہیں، دل کی بھی ہے۔"
ہانیہ کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
"تو پھر تم نے نکاح کیوں کیا؟"
"کیونکہ میں تم سے نفرت کرتا تھا… اور شاید کرتا ہوں…"
"مگر اس نفرت میں کہیں نہ کہیں تمہارے آنسو میرے دل میں چھبھنے لگے ہیں۔"
ہانیہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
یہ نفرت تھی؟
یا محبت کا آغاز؟
مرد دروازے کی طرف بڑھا۔
"آرام کرو… کل سے تمہیں میری دنیا میں جینا ہے۔"
دروازہ بند ہوا، مگر دل کا در کھل چکا تھا۔
کمرہ ایک بار پھر خاموش تھا… مگر اب وہ خاموشی پرسکون سی لگی۔
ہانیہ نے چادر کو خود پر اوڑھ لیا… اور پہلی بار دل میں یہ احساس جاگا:
"شاید… شاید یہ مرد نفرت کے پردے میں چھپی محبت کا اسیر ہے…"
صبح کی روشنی کمرے میں آہستہ آہستہ داخل ہو رہی تھی۔ ہانیہ نے آنکھیں کھولیں تو پہلی بار یہ کمرہ قید خانہ نہیں لگا… بس ایک اجنبی سا گوشہ، جہاں ایک نئی زندگی شروع ہوئی تھی — بےاختیار، بےخبر… مگر اب انجان نہیں۔
وہ اُٹھی، چادر کو خود پر لپیٹتے ہوئے واشروم کی طرف بڑھی۔ آئینے میں دیکھا تو اپنے چہرے پر ایک نرمی سی محسوس کی۔
"کیا میں اسے سمجھنے لگی ہوں؟ یا بس کمزور ہو رہی ہوں؟"
کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھلا۔ وہی مرد — آج casual انداز میں، مگر پھر بھی اُس کی آنکھوں میں وہی شدت، وہی ضبط۔
"اٹھ گئی؟"
ہانیہ خاموش رہی۔ اس نے ہامی میں سر ہلایا۔ مرد آگے بڑھا، اور بیڈ کے کونے پر بیٹھ گیا۔
"ناشتہ تیار ہے… آؤ، کچھ بات بھی کرتے ہیں۔"
Dining Area – ایک خاموش breakfast
ہانیہ نے نظر چرا کے اُس کی طرف دیکھا۔
"ایک سوال کر سکتی ہوں؟"
"اجازت کی ضرورت نہیں۔"
"آپ کا نام کیا ہے؟"
اس نے چونک کر ہانیہ کو دیکھا، جیسے یہ سوال کسی زخمی مقام کو چھو گیا ہو۔
"زریان۔ زریان شاہ۔"
"تو میں… ہانیہ شاہ؟"
یہ نام کچھ عجیب سا لگا اسے… مگر اتنا برا بھی نہیں۔
زریان کی نگاہیں اس پر جمی تھیں۔
"میں تمہیں صرف سزا دینے کے لیے نہیں لایا… بلکہ شاید… اپنے سوالوں کا جواب ڈھونڈنے بھی لایا ہوں۔"
Later that night
کمرے کی روشنی مدھم تھی۔ باہر بارش شروع ہو چکی تھی — ہر قطرہ کھڑکی سے ٹکرا کر ایک سرگوشی کرتا، جیسے وقت خود کوئی راز بتانا چاہتا ہو۔
ہانیہ چپ چاپ بیڈ کے کونے پر بیٹھی تھی، بال کھلے، آنکھوں میں عجیب سی نمی۔
زریان کمرے میں داخل ہوا، اور اس کے سامنے آ کر رک گیا۔
"میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتا ہوں۔"
اس نے جیب سے ایک لال رنگ کا رومال نکالا، جس پر خون کے دھبے تھے۔
"میرے بھائی کی آخری سانس… اس رومال پر چھپی ہے۔ اور تم…"
"بس!"
ہانیہ کھڑی ہو گئی۔
"کتنی بار کہوں کہ میں قصوروار نہیں! تم چاہتے ہو میں گھٹ گھٹ کر مر جاؤں؟ تم نے نکاح کیا… سزا دینے کے لیے یا اپنے زخموں پر مرہم لگانے کے لیے؟"
زریان کی آنکھیں سوج گئیں۔
وہ آہستہ سے آگے بڑھا۔
ہانیہ پیچھے ہٹنے لگی… لیکن دیوار سے جا لگی۔
زریان نے اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے، نظریں اس کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔
"میں تمہیں توڑنا نہیں چاہتا، ہانیہ… مگر تم نے مجھے اندر سے توڑ دیا ہے۔ اور تمہیں دیکھ کر… شاید پہلی بار میرے دل میں کوئی نرم جذبہ جاگا ہے۔"
"کیا جذبہ؟ نفرت یا محبت؟"
ہانیہ کی آواز کپکپائی۔
زریان کا چہرہ جھکنے لگا، وہ ہانیہ کے اتنا قریب آیا کہ اس کی سانسیں اس کے چہرے سے ٹکرا رہی تھیں۔
"مجھے خود نہیں پتا…"
وہ سرگوشی میں بولا۔
اگلے لمحے — خاموشی کا ایک طوفان، اور دل کی دھڑکنوں کا شور۔
زریان نے آہستہ سے اس کی پیشانی کو چھوا… ایک تھرتھراہٹ سی اس کے وجود میں دوڑ گئی۔
"میں تمہیں صرف اپنی بیوی نہیں، ایک انسان کی طرح سمجھنا چاہتا ہوں… لیکن اگر تم چاہو تو میں آج کے بعد تمہیں کبھی ہاتھ نہیں لگاؤں گا۔"
وہ رات… پہلی بار خوف سے نہیں، احساس سے بوجھل تھی۔
ہانیہ خاموشی سے لیٹ گئی، مگر آنکھوں میں نیند کہاں تھی؟
دل کہہ رہا تھا:
"یہ شخص… شاید نفرت میں بھی محبت چھپا رہا ہے۔"
بارش ابھی تک رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
کھڑکی کے باہر گرتے قطروں کی آواز، کمرے میں بکھری ہوئی خوشبو، اور اندر… دو لوگ۔
ایسے جیسے نفرت اور کشش کی ایک ان کہی جنگ میں بندھے ہوں۔
ہانیہ کی سانسیں بے ترتیب تھیں۔
وہ لیٹی تو تھی، مگر نیند آنکھوں سے کوسوں دور۔
زریان کی قربت… اس کی خاموش نظریں… اُس کے دل کو عجیب سی گواہی دے رہی تھیں۔
تب ہی دروازہ آہستہ سے کھلا۔
زریان اندر آیا، بارش کے قطرے اب بھی اس کی گردن اور بالوں پر چمک رہے تھے۔
وہ لمحہ... ہانیہ کے لیے ساکت ہو گیا۔
"تم… ابھی تک جاگ رہی ہو؟"
ہانیہ نے پلکیں جھکا لیں۔
"نیند نہیں آ رہی… دل گھبرا رہا ہے۔"
زریان آہستہ سے مسکرایا اور سامنے آ کر بیٹھ گیا۔
اس کی آواز میں پہلی بار وہ نرمی تھی جس کی ہانیہ کو ضرورت تھی۔
"دل کو کبھی کبھی اپنائیت کی ضرورت ہوتی ہے… جیسے میرے دل کو تمہاری۔"
ہانیہ چونکی، نظریں اس کی طرف اٹھیں۔
زریان کی آنکھوں میں صرف سچائی تھی۔
"میں تم سے نفرت کرتا تھا، ہانیہ…"
"لیکن اب… تمہاری خاموشی، تمہاری آنکھوں کی نمی، تمہارا ٹوٹا ہوا دل… سب کچھ مجھے کھینچنے لگا ہے۔"
وہ لمحہ… جس میں صرف دو دھڑکنیں تھیں۔
زریان نے آہستہ سے ہانیہ کی ٹھوڑی کو چھوا، اور اسے اپنی طرف مڑنے پر مجبور کیا۔
"اب میں تم سے سچ کہوں گا…"
"تم میرے دل میں اتر گئی ہو… جیسے بارش رگوں میں اترتی ہے۔"
ہانیہ کی آنکھوں سے ایک آنسو نکلا۔
زریان نے اُسے اپنی انگلی سے چُھوا اور آہستہ سے کہا:
"یہ آنسو اب میرے ہیں۔"
اُس نے ہانیہ کا ہاتھ تھاما، اور اسے آہستہ سے اپنے قریب کھینچا۔
ہانیہ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔
زریان نے اس کے بالوں کو پیچھے کیا، اور آہستہ سے اس کے گال پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔
وہ لمس…
نہ نفرت کا تھا، نہ زبردستی کا…
وہ چاہت تھی، وہ قبولیت تھی۔
"تم میری بیوی ہو، ہانیہ…"
"لیکن آج پہلی بار تمہیں اس حیثیت سے چھو رہا ہوں، جیسے تم میری روح ہو۔"
ہانیہ نے آنکھیں بند کر لیں۔
کمرے کی خاموشی اب صرف ان کے دل کی آوازیں سن رہی تھی۔
زریان نے اسے آہستہ سے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیا۔
ہانیہ کی پیشانی پر ایک لمبا بوسہ دیا… اور سرگوشی کی:
"آج کی رات صرف میری نہیں… تمہاری بھی ہے۔"
رات... دھڑکنوں، لمس اور احساس سے بھر گئی۔
ایک ایسی قربت جو جذبات سے شروع ہو کر جسمانی حدوں کو چھو گئی، مگر بےحد خوبصورت اور مکمل محبت میں لپٹی ہوئی۔
وہ اسکے کاندھوں پر سے فراک کو کھسکاتا ہوا نیچے کرتا اپنے لب اسکے سینے کی گہرائیوں پر رکھتا شدت پسندی دیکھانے لگا
ہانیہ نے بیڈ شیٹ کو مٹھیوں میں جکڑے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرنے لگی جو شخص اس سے نفرت کرتا تھا آج اسکی قربت ہی اسے سکون پہچانے کی وجہ بننے والی تھی
اپنی پینٹ کو اتارتا وہ ہانیہ کی ٹانگوں کو وائڈلی اوپن کرتا خود کو اسکی روح میں اتار گیا درد سے کراہتی ہوئ ہانیہ اسکے کاندھوں میں اپنے ناخن گاڑھ گئ مگر اس تکلیف میں بھی ایک الگ قسم کا سکون تھا
صبح… سورج کی پہلی روشنی میں ہانیہ زریان کے سینے پر سوئی تھی۔
زریان نے اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے سرگوشی کی:
"اب تمہاری ہر سانس میری ہے، اور میرا ہر لمحہ تمہارا۔"
صبح کی کرنیں آہستہ آہستہ کمرے میں پھیلنے لگیں۔
زریان ابھی بھی جاگ رہا تھا — ہانیہ اس کے سینے پر بے خبر سوئی ہوئی تھی، بال بکھرے، چہرے پر سکون… جیسے کوئی بھٹکی ہوئی روح آخرکار اپنا گھر پا گئی ہو۔
زریان نے جھک کر اُس کی پیشانی کو بوسہ دیا۔
"تمہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ میری ٹوٹی ہوئی دنیا مکمل ہو گئی ہے، ہانیہ۔"
ہانیہ آہستہ سے جاگی، اُس کی آنکھیں دھندلی تھیں لیکن لبوں پر ہلکی سی مسکراہٹ تھی۔
"تم جاگ رہے ہو؟"
وہ سرگوشی میں بولی۔
"جب تم میری بانہوں میں ہو… نیند آنکھوں سے روٹھ جاتی ہے۔"
وہ لمحے… جو صرف محبت سے لبریز تھے۔
زریان نے اس کے چہرے کو اپنی انگلیوں سے چھوا، پھر آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں اس کی گردن کے گرد پھیرنے لگا۔
"کل کی رات…"
ہانیہ جھجکی۔
"تم میری ہو… اب ہمیشہ کے لیے۔"
زریان نے اس کے کان کے قریب جھک کر کہا، اور اس کی گردن پر ایک لمبا بوسہ دیا۔
ہانیہ کا پورا وجود جیسے کانپ سا گیا۔
پیار سے بھرا وہ لمحہ ابھی جاری ہی تھا کہ…
دروازے پر دستک ہوئی۔
زریان جھٹکے سے اٹھا، آنکھوں میں ناگواری آ گئی۔
"کون؟"
اس نے دروازہ کھولا تو باہر ایک عورت کھڑی تھی۔
خوبصورت، باوقار، آنکھوں میں غرور۔
"تم نے نکاح کر لیا، زریان؟ اور مجھے بتایا تک نہیں؟"
ہانیہ کے دل کی دھڑکن رک سی گئی۔
زریان نے فوراً دروازہ بند کر کے ہانیہ کی طرف دیکھا، جو حیرت و بےیقینی کے عالم میں بیڈ سے اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔
"یہ… کون ہے؟"
ہانیہ کی آواز کپکپا گئی۔
زریان نے ہانیہ کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
"میرے ماضی کی ایک غلطی۔"
عورت کی آواز باہر سے سنائی دی:
"Zaryan! Tum mujh se bhag nahi sakte! Tum jaante ho, main kis level tak ja sakti hoon."
زریان کی آنکھوں میں غصے کی چنگاریاں بھڑکنے لگیں۔
اس نے ہانیہ کو سینے سے لگا لیا۔
"تم اب میری زندگی ہو، ہانیہ۔ کوئی بھی… کوئی بھی تمہیں مجھ سے چھین نہیں سکتا۔"
زریان کا لہجہ بدل چکا تھا۔
اب اس کی محبت میں شدت آ چکی تھی، ایک جنون… ایک دیوانگی۔
"جو میرے اور تمہارے بیچ آئے گا، ہانیہ… میں اسے ختم کر دوں گا۔"
ہانیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر اس بار خوف سے نہیں، ایک عجیب سی تسلی سے۔
"اور اگر میں خود ہی پیچھے ہٹ گئی؟"
زریان نے ہانیہ کی ٹھوڑی تھامی، اور آہستہ سے اُس کے ہونٹوں پر بوسہ دیا۔
"تب بھی… میں تمہیں واپس لے آؤں گا، ہر بار۔ کیونکہ تم میری ہو… sirf meri."
دروازہ بند ہو چکا تھا، مگر باہر کھڑی اُس عورت کی آوازیں اب بھی در و دیوار میں گونج رہی تھیں۔
ہانیہ خاموش تھی، نظریں زریان کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں جو غصے، بےچینی اور الجھن کا مکمل عکس بن چکا تھا۔
"کون تھی وہ؟"
ہانیہ کی آواز لرز رہی تھی۔
زریان نے گہرا سانس لیا، اور آہستہ سے اس کے قریب آ کر اس کے ہاتھ تھام لیے۔
"میری ماضی کی ایک خاموش سزا… نائلہ۔ ہم کبھی محبت میں نہیں تھے، صرف جسمانی کشش تھی۔ لیکن وہ… اس کشش کو محبت سمجھ بیٹھی۔"
ہانیہ کی پلکیں بھیگ گئیں۔
"تو کیا… اب وہ تم سے واپس چاہتی ہے وہی رشتہ؟"
زریان کا ضبط ٹوٹنے لگا۔
"تم پاگل ہو کیا؟"
اس نے ایک جھٹکے سے ہانیہ کو اپنی بانہوں میں کھینچ لیا۔
"تمہیں لگتا ہے میں اُس کے لیے تمہیں چھوڑ دوں گا؟"
زریان نے ہانیہ کے چہرے کے قریب آ کر سرگوشی کی:
"تم میری ہو… اور جب تم مجھ سے دور جاتی ہو، میں پاگل ہونے لگتا ہوں۔"
لمحے جیسے تھم سے گئے۔
زریان نے آہستہ آہستہ ہانیہ کا دوپٹہ سرکایا، اس کی گردن کو چوما…
"یہ نشان… جو کل رات میرے لمس نے تمہارے بدن پر چھوڑے… یہ صرف جسم پر نہیں، رُوح پر بھی ہیں۔"
ہانیہ نے آنکھیں بند کر لیں، اس کی سانسیں بےقابو ہونے لگیں۔
زریان نے ہانیہ کو اٹھا کر بیڈ پر رکھا، خود اس کے اوپر جھک آیا۔
"تم میری ہو، ہانیہ… صرف میری۔"
وہ بولا، اور اس کی پلکوں پر ایک ایک بوسہ ثبت کرنے لگا۔
"میں تمہیں کسی اور کے تصور میں بھی نہیں دیکھ سکتا۔"
ہانیہ کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے، مگر اس بار وہ آنسو کمزوری کے نہیں، جذبے کے تھے۔
"تو پھر خود کو میرا ثابت کرو، زریان… صرف الفاظ سے نہیں، احساس سے۔"
اس ایک جملے نے زریان کے وجود میں طوفان بیدار کر دیا۔
اس نے ہانیہ کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا، اور شدت سے اس کے ہونٹوں پر جھک گیا…
لمبا، گہرا، اور مکمل بوسہ…
جس میں محبت بھی تھی، درد بھی… اور دیوانگی بھی۔
پھر اس کی سانسیں ہانیہ کے گلے، کندھوں، بازوؤں پر بکھرتی چلی گئیں۔
ہانیہ کا دل اس کی شدت کے آگے ہار ماننے لگا تھا۔
اس کے لبوں سے ایک ہلکی سسکی نکلی —
"زریان…"
"Shhh…"
زریان نے اُس کے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی۔
"آج صرف میری سنو… کیونکہ آج کی رات، میرا پیار تمہارے ہر خوف کو جلا کر راکھ کر دے گا۔"
زریان کی شدتیں ان دونوں کو پسینے سے بھگوتی ہوئ اس بات کا ثبوت دے رہی تھی کی کتنی شدت ہے ان دونوں کی محبت میں
رات ایک بار پھر گواہ بنی — اُن لمحات کی جن میں الفاظ نہیں، صرف احساس بولا۔
اگلی صبح… نائلہ پھر واپس آتی ہے۔
اس بار وہ زریان سے کہتی ہے:
"اگر تم نے مجھے ٹھکرایا… تو میں تمہاری بیوی کو برباد کر دوں گی۔"
نائلہ کی آنکھوں میں وہی پرانا غرور، وہی زہر بھرا تبسم تھا۔
"زریان، تم مجھے بھول نہیں سکتے۔ میں نے تمہارے لیے سب کچھ چھوڑا تھا… اور اب تم ایک معصوم سی لڑکی کی خاطر مجھے رد کر رہے ہو؟"
زریان نے ہانیہ کا ہاتھ سختی سے تھام رکھا تھا، جیسے وہ اس کے وجود کو اپنی پناہوں میں چھپا لینا چاہتا ہو۔
"نائلہ، تمہارا اور میرا رشتہ کبھی سچ نہیں تھا۔ تم نے صرف میرے جسم کو چاہا تھا، میری روح کو نہیں۔ لیکن ہانیہ… وہ میرے اندر تک اتر گئی ہے۔"
نائلہ کا چہرہ تن گیا۔
"اگر تم نے مجھے ٹھکرایا، تو یاد رکھو… میں اس لڑکی کی عزت کو ایسا داغ دوں گی کہ تمہارا پیار خود تم سے نفرت کرنے لگے گا!"
اگلے دن…
ہانیہ کی تصویریں کسی جعلی اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پر اپلوڈ ہو چکی تھیں —
ایڈٹڈ، شرمناک، اور بہتان بھرے کیپشن کے ساتھ۔
پوری دنیا کے سامنے ہانیہ کی عزت کو روندنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ہانیہ بکھر گئی تھی، آئینے میں اپنے چہرے کو دیکھ کر روتی جا رہی تھی۔
"زریان… یہ سب کیا ہے؟ لوگ مجھے گندی لڑکی کہہ رہے ہیں… میں نے تو کچھ نہیں کیا…"
زریان اندر آیا، غصے سے اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔
"یہ صرف تم پر حملہ نہیں… میری غیرت پر وار ہے!"
اس نے ہانیہ کو اپنے سینے سے لگا لیا، اس کے بالوں میں اپنا چہرہ چھپا کر کہا:
"Main tumhari izzat hoon, Haniyah… koi tumhara naam لے، to samajh le usne mera naam liya ہے!"
اسی رات…
زریان نے ایک پریس کانفرنس بلائی۔
میڈیا کیمروں کے سامنے، اُس نے ہانیہ کا ہاتھ تھام کر سب کے سامنے کہا:
"یہ میری بیوی ہے — میری محبت، میری عزت، میری دنیا۔
جس نے اس پر انگلی اٹھائی، گویا میرے دل پر وار کیا۔
اور میں اس وار کا بدلہ لینا جانتا ہوں!"
پھر رات کو…
ہانیہ خاموش بیٹھی تھی، زریان نے اسے آہستہ سے بیڈ پر کھینچا۔
"دیکھو میری آنکھوں میں…"
"تم اب بھی میری ہو، ویسی ہی جیسی پہلی رات تھیں — معصوم، نازک، اور میری۔"
ہانیہ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، وہ زریان کے گلے لگ گئی۔
"تمہیں کیسے یقین ہے کہ میں اب بھی…؟"
زریان نے اس کے ہونٹوں پر انگلی رکھی، اور آہستہ سے اس کے دوپٹے کو سرکایا۔
"تم جو بھی ہو… جیسی بھی ہو… تم میری ہو۔ اور تمہاری ہر سانس پر صرف میرا حق ہے۔"
پھر اُس نے ہانیہ کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا — آہستہ، نرمی سے، جیسے ہر زخم پر مرہم رکھ رہا ہو۔
ہر بوسہ، ہر لمس میں محبت کے ساتھ تحفّظ بھی تھا۔
زریان نے آج ہانیہ کو صرف چاہا نہیں، اسے قبول کیا… دل، جسم، روح سمیت۔
یہ رات… ان کے رشتے کی نئی شروعات تھی۔
چار ہفتے بعد
نائلہ کی اصلیت پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو چکی تھی۔
زریان نے اُس کے خلاف کیس دائر کیا، ثبوت میڈیا پر وائرل ہوئے — تصویریں اُس کے اکاؤنٹ سے ایڈٹ ہو کر ہانیہ کے خلاف پوسٹ کی گئی تھیں۔
نائلہ کو عدالت سے نہ صرف سزا ملی، بلکہ سوشل میڈیا سے بلیک لسٹ کر دیا گیا۔
زریان نے جب آخری بار اُس کی طرف دیکھا، تو صرف ایک جملہ کہا:
"تم نے میری بیوی کی روح کو روندنے کی کوشش کی… اور میں نے تمہاری شہرت کو دفن کر دیا۔"
اب وہ دن تھا… جس کا خواب ہانیہ نے کبھی نہیں دیکھا تھا — زریان کے ساتھ ہنی مون۔
وہ دونوں ایک خوبصورت ریزورٹ میں پہنچے، سمندر کے کنارے، جہاں ہوا میں بھی پیار بسا ہوا تھا۔
ہانیہ سفید ساٹن کے گاؤن میں جیسے چاندنی کا ٹکڑا لگ رہی تھی۔
ہانیہ کھڑکی کے پاس کھڑی بارش کو دیکھ رہی تھی، اُس کے کندھوں پر زریان کی نرم انگلیوں نے آہستہ سے چھوا۔
وہ چونکی نہیں — کیونکہ اب اُس کا لمس پہچانا جانے لگا تھا۔
لیکن آج کا لمس… کچھ الگ تھا۔
"Aaj ki raat sirf tumhari hai…"
زریان نے دھیرے سے اس کے کان کے قریب سرگوشی کی،
"… aur tum sirf meri ہو."
ہانیہ کی پلکیں لرزیں۔ وہ آہستہ سے پلٹی —
زریان کے سینے سے لگی، دونوں کے درمیان سانسوں کا فاصلہ بھی باقی نہ رہا۔
کمرے میں صرف موم بتیوں کی روشنی تھی —
جو اُن کے چہروں پر سائے بنا رہی تھی،
اور ہر سایہ… ایک نئے لمس کا وعدہ کرتا تھا۔
---
زریان نے اُس کا دوپٹہ آہستہ سے اتارا —
نہ جلدی، نہ ہچکچاہٹ —
ہانیہ کی سانسیں بے ربط ہو گئیں۔
"Tumhari har saans ka ehtram karta hoon… is liye har chhooha sirf izzat se bhara hoga."
پھر اُس نے ہانیہ کی پشت پر لب رکھے —
نرمی سے، تسلسل سے، جیسے ہر بوسہ ایک محبت بھرا دستخط ہو۔
---
بیڈ تک آتے آتے ہانیہ کی انگلیاں زریان کے کالر میں الجھ چکی تھیں،
لب ہلتے تھے مگر الفاظ نہیں نکلتے — صرف جذبے بولتے تھے۔
زریان نے اس کے چہرے کے ایک ایک نقش کو چھوا،
"Main sirf tumse mohabbat nahi karta, main tumhe mehsoos karta hoon… har raat, har pal, har sapne mein."
---
شدت بڑھتی گئی —
لبوں کی پیاس نے لبوں کو چُنا،
گردن سے ہوتے ہوئے سینے تک،
زریان کے ہاتھوں نے ہانیہ کے بدن پر صرف لمس نہیں چھوڑا…
بلکہ تحفّظ اور تسکین کا اثر بھی چھو ڑا۔
ہر بوسہ، ہر سانس، ایک نئی قُربت کا آغاز تھا۔
کمرہ — خاموش تھا، مگر جذبات چیخ رہے تھے۔
بستر کی سفید چادر ان دونوں کی محبت سے رنگین ہونے لگی
---
صبح…
ہانیہ زریان کی آغوش میں لیٹی تھی، چادر دونوں پر ڈھکی ہوئی،
اور زریان اس کی کمر پر انگلیوں سے دائرے بنا رہا تھا۔
"Kal raat ki main koi bhi baat nahi bhoolunga… tumhari woh halki si muskurahat,
woh pal jab tumhari aankhon mein sirf mera aks tha…"
ہانیہ نے مسکرا کر آنکھیں کھولیں،
"Main bhi nahi bhoolungi… tumhara woh har lamha,
jo meri روح ko choo gaya tha."
---
تین مہینے بعد…
زندگی نارمل ہو چکی تھی۔ ہانیہ اب مسکرا کر جیتی تھی، اور زریان… وہ پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھنے والا شوہر بن چکا تھا۔
ایک شام، جب بارش ہلکی ہلکی برس رہی تھی، ہانیہ نے زریان کو باہر لان میں بلایا۔ وہ سفید شلوار قمیض میں تھی، ہاتھ میں ایک چھوٹا سا لفافہ تھا۔
"Yeh kya hai?" زریان نے حیرت سے پوچھا۔
ہانیہ نے خاموشی سے لفافہ اس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ اندر سے ایک چھوٹا سا کارڈ نکلا جس پر لکھا تھا:
“Coming Soon… Baby Z!"
زریان کی آنکھوں میں خوشی کی چمک تھی، مگر ساتھ ہی لبوں پر لرزش بھی تھی۔ وہ لفظوں کے بغیر ہانیہ کو دیکھتا رہا۔
"Sach mein?"
اس کی آواز بھرا گئی۔
ہانیہ نے اثبات میں سر ہلایا۔
زریان نے ہانیہ کو اپنے سینے سے لگا لیا، اس کی پیشانی پر لمبا بوسہ دیا، اور پھر اس کے پیٹ پر ہاتھ رکھ کر بولا:
"Ek chhoti si jaan… jo sirf tum dono ka nishaan hogi."
اگلے دن…
ہانیہ بیڈ پر لیٹی تھی، زریان اس کے پیروں کی مالش کر رہا تھا۔
"Tum meri rانی ho, haniyah… aur iss ghar mein tumhare liye har comfort hoga, har sukoon hoga."
ہانیہ ہنس پڑی۔
"Aur agar baby tum jaisa nikla تو؟"
زریان نے ہنستے ہوئے اُس کے پیٹ پر جھک کر کہا:
"Agar meri tarah hua… toh maa pe aur bhi zyada fida hoga!"
آخری منظر:
چند مہینے بعد، ہسپتال کا کمرہ۔
ہانیہ کے بازو میں ننھی سی جان سمیٹی ہوئی تھی، زریان اُس کے ساتھ بیٹھا، دونوں کو دیکھ رہا تھا — اُس کی زندگی کی دو سب سے قیمتی چیزیں۔
"Main har dukh, har saza, har raat… sirf is ek lamhe ke liye jeeya hoon."
ہانیہ نے زریان کا ہاتھ پکڑا، اور دھیرے سے کہا:
"Ab hamesha ke liye… hum teen ho gaye hain."
The End – Forever
No comments