Meri Ashique Pasand Aye By Malisha Rana Complete Pdf
Meri Ashique Pasand Aye By Malisha Rana Complete Pdf
" ہاۓ ہاۓ کمبخت ماری جلدی ہاتھ چلا ورنہ فیصل بھوکا ہی چلا جاۓ گا آج سکول۔۔۔"
" جی جی بس دو منٹ ممانی جی کر رہی ھوں۔۔۔"
ساجدہ بیگم کے چیخنے پر عنیہ جلدی جلدی ھاتھ چلاتے ناشتہ بنانے لگی اور اگلے 5 منٹ میں وہ ناشتہ ٹرے میں رکھے کچن سے باہر لے آئی۔۔۔
" جلدی کام نہیں کر سکتی ھے تو , پتہ نہیں کن خیالوں میں کھوئی رہتی ھے جو ایک کام بھی ڈھنگ سے نہیں ھوتا تجھ سے۔۔۔"
روزانہ کی طرح آج بھی ساجدہ بیگم کسی نا کسی بات پر عنیہ کی بے عزتی ہی کر رہی تھیں وجہ ان کی عنیہ سے بے جا نفرت تھی کیونکہ عنیہ کا 3 سال کی میں یتیم ھو کر ان کے گھر ہمیشہ کے لیے آ جانا ساجدہ بیگم کو بہت برا لگا تھا۔۔۔
عنیہ کے والدین جب اس دنیا سے کوچ کر گۓ تب امجد صاحب اپنی بہن کی آخری نشانی عنیہ کو اپنے ساتھ لے آئے اور بیٹی بنا کر پالنا شروع کر دیا لیکن ساجدہ بیگم کو عنیہ ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی وہ پہلے دن سے ہی عنیہ کے ساتھ برا برتاؤ کرتیں اور اپنے دونوں بچوں( بیٹا فیصل اور بیٹی سویرا) پر محبت لٹاتیں رہتی تھیں۔۔۔
امجد صاحب کے علاوہ گھر کا کوئی بھی فرد عنیہ کو پسند نہیں کرتا تھا مگر عنیہ معصوم پھر بھی خاموشی سے ہر کسی کی بات کو برداشت کرتی اور چپ چاپ صبر کا گھونٹ بھر کے اپنے کاموں میں مصروف رہتی تھیں اسے تو بچپن سے ہی ساجدہ بیگم اور سویرا فیصل کے سخت رویے کی عادت ھو گئی تھی تبھی اب بھی وہ کچھ دیر تک اداس ھو کر بات کو بھلانے میں مصروف ھو گئی تھی۔۔۔
" ساجدہ بیگم یہ تم ٹھیک نہیں کر رہی ہو , کس لہجے میں بات کر رہی ھو میری بیٹی سے۔۔۔"
امجد صاحب جو ابھی اپنے کمرے سے باہر آئے تھے وہ ساجدہ بیگم کی باتیں سن کر آگ بگولہ ھونے لگے۔۔۔
" کیا ھو امجد صاحب اب کیا کر دیا ھے میں نے , اچھا ھو گا آپ اپنی اولاد پر دھیان دیں اور غیروں کی فکر میں مارے مارے پھرنا چھوڑ دیں۔۔۔"
ساجدہ بیگم کہاں چپ رھنے والوں میں سے تھیں تلخی سے اپنے شوہر کو جواب دیتے ھوئے ساتھ عنیہ کو بھی آنکھیں دیکھانے لگیں جس کی وجہ سے امجد صاحب اسے ڈپٹ رھے تھے۔۔۔۔
" تمیز اور شفقت سے پیش آیا کرو عنیہ کے ساتھ وہ میری مرحوم بہن کی اکلوتی نشانی ھے , میرے لیے کتنی انمول ھو یہ تمہیں اندازہ بھی نہیں ھو گا اور یہ تو بتاؤ مجھے کہ میری معصوم بچی عنیہ اتنی ذاہین ھے پھر بھی تم اسے آگے پڑھنے نہیں دے رہی ہو آخر کیوں۔۔۔؟؟؟
امجد صاحب نے منٹوں میں عنیہ کی حیثیت ساجدہ بیگم پر واضح کر دی جبکہ عنیہ کی مزید پڑھائی کی بات پے ساجدہ بیگم کو تو مانو مرچی لگ گئی ھو تبھی بھڑک اٹھیں۔۔۔
" اس کے بھلے کے لیے ہی ہلکا سا ڈانٹ ڈپٹ دیتی ھوں مگر لگتا ھے بہت سی شکایتیں لگائی جا رہی ھیں میری, امجد صاحب بات سنیں میری آپ کی لاڈو نے میرے روکتے روکتے بھی ڈھیروں پیسے برباد کر کے ایف اے تو کر ہی لیا ھے نا, اب مزید آگے پڑھانے کے لیے ہمارے پاس پیسے نہیں ھیں, ارے آپ کے اپنے بھی بچے ھیں ان کا بھی سوچ لیا کریں کل کو ان کا مستقبل کا ہم نہیں سوچیں گے تو کون سوچے گا۔۔۔"
ساجدہ بیگم نے تو ڈرامہ ہی شروع کر دیا تھا جبکہ عنیہ بت بنی کھڑی سر جھکائے اپنے آنسوؤں کو روکنے کی سعی میں مصروف تھی اور فیصل سویرا ان دونوں کا چہرہ دیکھ رھے تھے۔۔۔
" ھاں ھاں آپ کے ایسے ہونہار بچے جو ایک کلاس میں ہی دو دو سال لگاتے ھیں ان پر تو جیسے پیسے خرچ کرنے کے لیے آپ پیڑ سے توڑ کر لاتی ھیں نا وہ بھی میری ہی کمائی ھے مت بھولیں۔۔۔۔"
امجد صاحب بغیر کوئی لحاظ کیے ساجدہ بیگم کو باتیں سنائے جا رھے تھے۔۔۔۔
" جو بھی ھے آپ کو تو ہمیشہ یہ عنیہ ہی پرفیکٹ لگتی ھے اور اپنی اولاد میں صرف برائیاں ہی نظر آتی ھیں ۔۔"
ساجدہ بیگم نے غصے سے منہ سجا لیا۔۔۔
" وہ ھے ہی اس قابل اس لیے تو تعریف کرتا ہوں اس کی جس دن آپ کی اولاد اس قابل ھو جائے گی تب انھیں بھی سراہوں گا میں۔۔۔۔"
" بس بس رہنے دیں آپ سب جانتی ھوں میں , ارے اوو عنیہ آ کر برتن آٹھا لے۔۔۔"
امجد صاحب کو جواب دے کر ساجدہ بیگم نے کچھ فاصلے پر کھڑی عنیہ کو آواز دی۔۔۔
" ج۔۔۔جی ممانی۔۔۔"
عنیہ نے فوراً آ کر برتن اٹھا لیے اور کچن کی طرف بڑھنے لگی۔۔۔۔
" میری بچی کتنی پیاری ھے افف تک بھی نہیں کرتی اور تم ھو جو پیچھے ہی پڑی رہتی ھو اس کے, عنیہ بیٹا تم نے ناشتہ کر لیا۔۔۔"
ساجدہ بیگم سے کہتے امجد صاحب نے عنیہ سے سوال کیا تو وہ رک کر پہلے ساجدہ بیگم کو دیکھنے لگی پھر امجد صاحب کی طرف نظروں کا رخ کیا۔۔۔
" ماموں وہ بس برتن دھو کر ابھی کر لیتی ہوں ناشتہ بھی۔۔۔"
" آپ فکر نہیں کریں کر لے گی ابھی ٹائم ہی کیا ہوا ھے۔۔۔"
ساجدہ بیگم نے جلدی سے کہا وہیں امجد صاحب بدلے میں انھیں دیکھتے نفی میں سر کو جنبشِ دینے لگے ۔۔۔
" ساجدہ بیگم خدا کے خوف سے ڈرا کرو , شرم آنی چاھیے تمہیں۔۔۔"
" کیا کیا کیا ھے میں نے۔۔۔"
" کچھ نہیں۔۔۔"
ساجدہ بیگم کو بے زاریت سے جواب دیتے امجد صاحب اپنے کام پر چلے گۓ کیونکہ پہلے ہی انھیں آج دیر ھو گئی تھی جبکہ عنیہ بھی کچن میں جا کر اپنے رکے ھوئے آنسو بہانے لگی۔۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°°°°°°
دوپہر کا وقت تھا جب سکول سے واپس آتے سویرا اپنی کچھ دوستوں کو ساتھ ہی گھر لے آئی اور آتے ہی عنیہ کو پکارنا شروع کر دیا۔۔۔
" عنیہ عنیہ جلدی سے میری دوستوں کے لیے شربت بنا کر لاؤ۔۔۔۔"
" سویرا پلیز آ کر خود بنا لو میں کباب بنا رہی ھوں۔۔۔"
کچن سے عنیہ کا انکار سن کر سویرا غصے سے کچن میں آئی اور عنیہ کے سر پر ایک چت لگائی۔۔۔
" تمہيں شرم نہیں آتی میری دوستوں کے سامنے میری بے عزتی کرتے ھوئے, ابھی باہر آ کر سوری کرو انھیں اور شربت بھی بنا کر لاؤ ورنہ ممی کو بتا دو گی میں۔۔۔"
غصے سے عنیہ پر چیخ کر روعب ڈالتے ھوئے سویرا کچن سے باہر نکل گئی جبکہ خود سے چھوٹی سویرا کا خود پر ھاتھ اٹھانا ایک مرتبہ پھر سے عنیہ کو آنسو دلا گیا اور وہ انھیں صاف کرتی شربت بنانے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد عنیہ شربت بنا کر باہر لائی اور سب کو سرو کیا جبکہ سویرا نے ایک گھونٹ بھرتے ہی گلاس اٹھا کر عنیہ کے منہ پر سارا شربت پھینک دیا۔۔۔
°°°°°°°°°°°°°
Click The Link To Get The Complete Novel
Online Reading
Aap k aadhay novels k links hi mojood nahi hain.or aadhey novels parts ki soorat me hain.wo bhi koi mojood he, or koi nahi.parts me koi tarteeb nahi he.parts waley novels k complete pdf mojood nahi hain.
ReplyDeleteInsan kry to kia kry.