Header Ads

  • Breaking News

    Muhafizay Ishq Chapter 3 By Malisha Rana

     

    Muhafizay Ishq Chapter 3 By Malisha Rana

    Muhafizay Ishq Chapter 3 By Malisha Rana 
    Below And Read This Online

    شیخ صاحب نے جب فاریاں کو بتایا کی صاۂم کا اکسیڈینٹ ہو گیا ہے تو فاریاں رونے لگی وہ کیسے ہو گیا دادا جی میں بھی ساتھ چلو گی کہا پر ہے بھائ 

    بیٹا نہیں تم پہلے تھک ہار کر آئ ہو میں جا رہا ہو نا تمہیں خرب دیتا رہو گا کی کیا ہو رہا ہے بس تم دعا کرو سب خیریت ہی ہو 

    جی دادا جی 

    شخ صاحب تنا بول گھر سے نکل گۓ ہوسپٹل پہنچتے ہی انہوں نے نرس سے پوچھا یہاں پر کابھی ابھی کوئ لڑکا اکسیڈینٹ ہونے کی وجہ سے آیا ہے

    جی ایک لڑکی لے کر آئ ہے روم نمبر 213 

    اوکے کہہ شیخ صاحب جلدی سے نرسکے بتاۓ گۓ روم میں پہنچ گۓ روم کے باہر ایک بہت ہی خوبصورت لڑکی کھ تھی ادھیڑ عمر شخص کو اپنی طرف آتا دیکھ وہ لڑکی سمجھ گئ کی شاید یہی ہے اس لڑکے کا دادا 

    انکل جی اسلام و علیکم میرا نام اربیہ ہے میں  ہی آپ کے پوتے کو یہاں لے کر آئ ہو 

    بہت بہت شکریہ بیٹا صاۂم کیسا ہے 

    دادا جی وہ اب ٹھیک ہے آپ فکر نہیں کرے آجکل کے لڑکے پتا نہیں ایسے کیوں ہوتے ہے کسی کی بھی پراوہ نہیں ہوتی ہے 

    بیٹا مجھے نہیں پتا میں تمہارا کیسے شکر ادا کرو کیونکی آجکل تم جیسے لوگ کہا ہوتے ہے تم نے میرے بچے کو ہوسپٹل لا کر مجھ پربہت بڑا احسان کیا ہے پہلے اس کے والدین مجھے چھوڑ کر چلے گۓ تھے اب صرف میری زندگی میں فاریاں اور صاۂم ہی ہے 

    انکل کوئ بات نہیں ایسے حادثے ہوتے رہتے ہے بس اللہ نے بچا لیا اسے 

    تب تک ڈاکٹر آ گیا صاۂم نشے میں دھت تھا اسی وجہ سے اس کا اکسیڈینٹ ہوا ہو گا کیسے کام کرتے ہے یہ لوگ 

    نہیں صاۂم ایسا نہیں ہے اس نے پہلے تو کبھی بھی ایسی کوئ حرکت نہیں کی پھر پتا نہیں کیوں آج ایسا کام کر دیا شاید انہیں گندے دوستوں کی وجہ سے ہی یہ ایسا بیگڑا ہے لیکن آۂندہ میں اسے سمجھا لو گا 

    اوکے انکل پھر میں چلتی ہو اکچلی میں لاہور سے کراچی آ رہی تھی اپنی فیملی کے پاس تو وہ انتظار کر رہے ہو گے 

    بیٹا بہت بہت شکریہ اور کبھی آنا ہمارے گھر ہم ڈی ایچ اے میں رہتے ہے 

    واہۂو انکل ہم بھی ڈی ایچ اے میں رہتے ہے کونسے فیز میں ہے آپ کا گھر 

    فیز نمبر ٢ اور تمہارا 

    انکل ہم 3 میں رہتے ہے ایسے تو ہم تقریبن پڑوسی ہوۓ 

    ہا ہا ہا تم ٹھیک کہہ رہی ہو اب تو ضرور ہمارے گھر آنا فاریاں تو تم سے مل کر بہت خوش ہو گی 

    جی ضروری انکل اوکے باۓ کہہ اریبہ وہاں سے چلی گئ 

    دادا جی اریبہ کے جاتے ہی غصے سے صاۂم کے پاس گے صاۂم ابھی بےہوش پڑا تھا 

    دادا جیغصے سے صاۂم کے پاس بیٹھے رہے تبھی فاریاں کی کال آ گئ دادا جی سب ٹھیک ہے نا بھائ کیسے ہے 

    بیٹا سب ٹھیک ہے تم فکر نہیں کرو اور کھانا کھا کر سو جاۂو 

    ٹھیک ہے دادا جی فاریاں نے فون بند کر دیا اور شکر ادا کر تھوڑا بہت کھانا کھا کر سو گئ 

    صبح صاۂم کو جب ہوش آیا تو دادا جی نے غصے سے کہا تجھے شرم نا آئ ایسی حرکت کرتے ہوۓ شراب پی تھی تو نے اگر تب تجھے کچھ ہو جاتا تو کیا ہوتا پھر تیری بہن کا  

    دادا جی فاریاں کل کیسے آئ تھی کالج سے واپس گھر 

    تجھے اس سے کیا وہ جیسے بھی آئ ہو تو تو عیاشیاں کر لے بےشرم بے غیرت 

    دادا جی بتاۓ پلیز کس کے ساتھ آئ کسی لڑکے کےساتھ تو نہیں

    کتنا تو بےشرم انسان ہے اتنی بہن پر اتنی پابندیاں عاۂد کرتا ہے اور خود کیسے کیسے کام کرتا ہے وہ چاہیں جس کے ساتھ بھی آئ ہو تجھے کیا 

    نا بتاۂیں میں خود جان لو گا 

    پہلے ٹھیک تو ہو جا جان لو گا تیرا باپ اور میں بہت نام کمایا ہے میں نے اس شہر میں کیوں اب تو ایسے کام کر کے ہمارا نام خراب کرنا چاہتا ہے

    دادا جی دوبارہ ایسے نہیں کرو گا 

    اب تو یہی پر رہ میں گھر جا کر فاریاں کو دیکھ لو 
    دادا جی وہ کیا اکیلی گھر پر ہے 

    ن ن نہیں وہ فاریاں اپنی دوست کے ساتھ ہے گھر پر 

    شکر ہے ورنہ اگر اکیلی ہوتی تو ابھی میں چلا جاتا گھر 

    سچ میں صاۂم تم کیا چیز ہو فاریاں پر اتنی بھی پابندیاں مت لگاۂو بھروسہ کرناےسیکھوں اس پر ورنہ تمہارے ڈر کی وجہ سے ایک دن فاریاں باغی ہو جاۓ گی 

    دادا جی فاریاں کے اس قدم کو اٹھانے سے پہلے میں اس کی شادی نا کروا دو چاہیں پھر وہ کوئ بھی ہو اور اب بس کرے مجھے یہاں لے کر کون آیا تھا 

    وہ اریبہ نامی بہت ہی پیاری بچی تھی سڑک پر ہزاروں لوگوں کے بیچ وہی تھی جو تمہیں ہسپتال لے کر آئ 

    اچھا اگر دوبارہ ملاقات ہوئ تو اس کا شکریہ ادا کرو گا 

    ہاں بیٹا میں نے اس سے کہا ہے کی وہ ہمارے گھر کبھی آۓ 

    اچھا بیٹا پھر تم آرام کرو میں چلتا ہو گھر 

    ہاں ہاں دادا جی پلیز آپ جاۓ 

    شیخ صاحب ہوسپٹل سے نکل کر گھر جانے لگے فاریاں ناشتہ بنا رہی تھی کی تبھی دروازے پر دستک ہوئ  

    فاریاں نے جلدی سے دروازہ کھول دیا کی شاید دادا جی اور بھائ ہو گے لیکن سامنے افزان کھڑا تھا 
    آپ یہاں پر فاریاں ڈر گئ کیونکی گھر پر کوئ بھی نہیں تھا 

    جی وہ اکچلی میں پتا کرنے آیا تھا آپ کے بھائ کے بارے میں کہا پر ہے وہ 

    وہ بھائ کا کل اکسیڈینٹ ہو گیا تھا اسی وجہ سے مجھے لینے نہیں آۓ تھے لیکن اب وہ ٹھیک ہے دادا جی ہوسپٹل میں ہی ہے 

    او اچھا اگر میری کوئ ضرورت ہو تو آپ مجھے بس ایک کال کر دیجگا 
     
    اوکے آپ کا بہت بہت شکریہ کہہ فاریاں دروازہ لگانے لگی تبھی افزان نے جلدی سے کہا لیکن آپ مجھے کال کیسے کرے گی آپ کےپاس کونسا میرا نمبر ہے 

    او ہاں سوری 


    Click This Link And Get This Novel



    Online Reading

    No comments

    Post Top Ad

    Post Bottom Ad

    ad728