Header Ads

  • Breaking News

    Akhiri Mohabbat By Ameera Complete Novel

    Akhiri Mohabbat By Ameera Complete Novel

     Akhiri Mohabbat By Ameera Complete Novel

    روزانہ اس ناول کی ایپسوڈز یہاں پر آتی رہا کرے گی تھینکس

    Episode 1

    حویلی کے دروبام میں چڑیا جیسی اس کی چہک تھی جو ڈھلتی عصر میں گھل رہی تھی اس نے ملکہ کی طرح اپنے کاندھو پے دوپٹہ ڈال رکھا تھا


     جو گھر میں کام کرنے والے شرفان کی بیٹی نے تھام رکھا تھا وہ کھیلنے کیلئے حویلی آ جایا کرتی تھی اور لاج اسے ایسے ہی اپنے ساتھ ساتھ رکھا کرتی اس کی اس حویلی میں دوستی ویسے تو سب سے تھی اس کا بس ایک ہی دشمن تھا جو اسے ہر وقت ڈاٹتا رہتا تھا اور اس دشمن کا نام تھا دارین شاہ


     لاج اس کا نام لے کر ناک سکڑ لیتی اور کہتی ایک دن میں آپ سے بدلہ ضرور لوں گی اس کی عمر پندرہ سال تھی اور ڈارین شاہ پینتیس کا تھا ایک میچور مرد جس کا چہرہ ہر وقت سنجیدہ رہتا تھا


     اس کو لاج نے مسکراتے کم ہی دیکھا تھا پہلے تو اچھے ہوتے تھے اتنا پیار کرتے تھے چیز بھی لا کر دیتے تھے لیکن اب تو بس لاج ایک دم سے شانے پکڑ لیتی اور ڈارین کی نکل اتار کر شری اور سدرہ کو دکھاتی مجھے کہتے ہیں لاج یہ مت کرو وہاں مت جاؤ یہ سر سے دوپٹہ کیوں اترا ہے وہ دارین کی طرح لب بھینچ کر گھورنے لگتی


     تمہاری عقل کہاں ہے اتنا زور سے کون ہستا ہے یہ بھاگ کر کہاں جا رہی تھی دماغ خراب مت کرو سردیوں میں آئس کریم کون کھاتا ہے بڑوں سے تمیز سے بات کیا کرو وہ آخر میں گہرا سانس لے کر کہتی شاہ کو کسی نے یہ نہیں بتایا کہ بچوں سے بھی پیار سے بات کی جاتی ہے پر وہ بھی بس شاہ کے معاملے میں اس کا ہر جملہ ایسے ہی بےبسی سے ختم ہوتا تھا 


    وہ شاہ کے لیے کچھ تو کرنا چاہتی تھی مطلب کچھ بھی جو جلدی سے ہو جائے لیکن میں کچھ بھی نہیں کر پا رہی وہ اپنے گالوں پر ہتیلیاں جما کر افسوس سے بیٹھ جاتی تھی


     تو تم شاہ کی بات مان کیوں نہیں جاتی وہ تمہاری بھلائی چاہتے ہیں لاج شری کو ایسے دیکھتی جیسے وہ پاگل ہو گئی اس سارے معاملے میں بس سدرہ ہوتی جو خاموشی سے لاج کو دیکھتی اس کے دل میں لاج کے لیے بہت محبت تھی وہ لاج کی پکی سہیلی تھی بہت پکی اتنی کہ وہ اس کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی وہ ہر دم ہر ممکن طریقے سے لاج کا ساتھ دیتی تھی جبکہ شری بڑے ہونے کے ناطے لاج کو سمجھاتی تھی جیسے اب سمجھا رہی تھی


     تم نہیں جانتی شا تمہاری بہت فکر کرتے ہیں بلکہ تم سے محبت بھی کرتے ہیں لاج اس کی بات پر سر جھڑکتی تھی ہاں جیسے مجھے تو پتا ہی نہیں وہ کونسی محبت ہے جو میرے علاوہ سب کو دکھائی دیتی ہے میں نے تو کبھی نہیں دیکھی ان کے محبت شری سے آنکھیں دکھاتی یہی تمہاری بے لگام زبان ہے جو شاہ کو غصہ دلاتی ہے لاج گندہ سا منہ بنا کر سر نا میں ہلاتی


     نو جی شاہ کو غصہ کرنے کا کوئی شوق ہے انہیں غصہ دلانا نہیں پڑتا بس غصہ خود سے ہی کرتے رہتے ہیں شری گہرا سانس لیتی تم شاہ کے سامنے سر پہ دوپٹہ لو گی تو وہ تمہیں اچھا کہیں گے کم بولو گی تو اور زیادہ اچھا کہیں گے اور شری آگے کچھ کہتی کہ لاج اس کی بات کاٹ دیتی بس اس سے زیادہ اگر میں اچھا کروں گی تو مٹ جاؤں گی مجھ سے چپ نہیں رہا جاتا میری طبیعت خراب ہو جاتی ہے


     وہ پندرہ عبور کر چکی تھی اور باتیں ایسی کرتی کہ شری کو بھی ہلا دیتی ایسی باتیں نہیں کرتے لاج شاہ نے سن لیا تو انہیں دکھ ہوگا وہ استہزا سے ہستی کہیں کہیں غصہ کریں گے شری سر جھٹک کر رہ جاتی تھی لیکن وہ لاج کو سمجھانا نہیں چھوڑی تھی اس کی عادت تھی لاج کو شاہ کی ڈانٹ سے بچانا اب بھی اس نے کہا تھا عصر ڈھل گئی ہے مغرب ہونے والی ہے شاہ ابھی آ جائیں گے تم یہ سب اتارو اور دوپٹہ لے کر خاموش ہو کر بیٹھ جاؤ انہوں نے تمہیں بال کھولے بغیر دوپٹے کے دیکھ لیا تو ناراض ہوں گے لاج نے اس کی بات ایک کان سے سنی اور دوسرے سے نکال دی وہ اپنے کھیل میں مگن رہی


     آج وہ ملکہ بنی ہوئی تھی سدرہ اس کی داسی تھی جو اس کا لبادہ اٹھائے اٹھائے پھر رہی تھی اور وہ آج گاوں میں غریب عورتوں کی مدد کرنے نکلی تھی اس کا فرضی گھوڑا کھڑا چارہ کھا رہا تھا اور داسی کے ساتھ چند ایک داسیاں اور بھی تھیں جو کہ بس لاج اور سدرہ کو دکھائی دیتی تھی ان کے ہاتھوں میں راشن کپڑے اور اشرفیاں تھی جو وہ غریب عورتوں میں بانٹ رہی تھی لاج پہلوں پہ ہاتھ جمان کر گردن اکڑا کر چلتی دادی کے پاس رکھی جو تسبیح پڑھ رہی تھی


     بتاؤ تمہیں کیا چاہیئے گھر میں کیا چیز نہیں ہے اماں دادی اس کے کھیل کو سیریس نہیں لیتی تھی اس لئے کوئی جواب نہیں دیا تو اس نے سدرہ کو پلٹ کر دیکھا داسی لگتا ہے یہ اماں گنگی اور بہری ہے انہیں تھوڑا تھوڑا سب دے دو دادی نے اس کی بات پر جوتا ڈھونڈا تو ملکہ اور داسی آگے بھاگ گئیں انہیں کچھ فاصلے پہ یعنی دوسرے صوفہ پہ پھوپھو بیٹھی دکھائی دے گئیں جو سیب کھا رہی تھی


     لاج ان کے پاس رک گئی یہ گاؤں میں نئ لگتی ہے اس نے سدرہ کو دیکھا جی ملکہ صاحبہ ابھی پچھلے ہفتے ہی آئی ہے آپ کو اطلاع دی تو تھی ملکہ کے لب او کی صورت ڈھل گئے اسے اب یاد آیا اچھا تو یہ وہ عورت ہے اس نے پھوپھو کو نیچے سے اوپر تک دیکھا پھوپھو کو ویسے ہی لاج کچھ خاص پسند نہیں تھی اس لئے اسے سامنے کھڑا دیکھ ان کے نقوش بگڑ گئے


     اور انہوں نے رخ موڑ لیا لیکن اگلے ہی لمحے انہوں نے لاج کو کھا جانے والی نگاہوں سے دیکھا تھا کیونکہ وہ کہہ رہی تھی یہ وہی عورت ہے نا جس کا شوہر نشئی ہے اور اس کو مارتا پیٹتا ہے تم نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ بہت مجبور ہے


     اس کو سب کچھ دینا فرضی فرضی داسیاں آگے بڑھتی کہ پھوپھو چلائی اپنی بکواس بند کر لو لاج کیا بک رہی ہو کچھ تمیز ہے چھوٹے بڑے کی ان کی اونچی اور تیکھی آواز پر شری جلدی سے کچن سے نکلی وہ شرفہ کے ساتھ رات کا کھانا بنوا رہی تھی اس نے باہر آ کر اپنی نانی کو دیکھا پھر ماں کو لاج کے قریب آ کر روکے لاج نے بھی منہ سکیڑ کر پھوپھو کو دیکھا


     داسی تم نے ہمیں یہ کیوں نہیں بتایا کہ یہ عورت زبان دراز ہے اگر تم ہمیں پہلے بتا دیتی تو ہمیں اس کے پیٹنے کا کوئی ملال نہ ہوتا بلکہ اب تم اس کی گردن کاٹو کیونکہ اس نے ملکہ کی شان میں گستاخی کی ہے اس کا مر جانا اب تہہ ہے پھر اس نے بھپری شیرنی کی طرح سانس پھولاۓ پھوپھو کی طرف انگلی اٹھائی تمہاری موت اب تہہ ہے


    پھوپھو کا بس نہیں چلتا تھا کہ وہ لاج کا خون پی جائیں انہوں نے اس کا بازو پکڑنا چاہا کہ شری آگے آگے امی بچی ہے اس نے لاج کو اپنے پیچھے کیا پھوپھو نے اسے گھورا تم درمیان سے ہٹ جاؤ انہیں جلال آگیا تھا اس لئے دادی کو درمیان میں بولنا پڑا انہوں نے تسبیح رکھی اور پھوپھو کو دیکھا


     کیوں اتنا غصہ کر رہی ہو پتا بھی ہے بچی ہے پورا دن بکواس کرتی ہے تم کیوں توجہ دیتی ہو پھوپھو نے پھولے تنفس سے اپنی ماں کو دیکھا بی جان یہ بچی نہیں ہے اس پر ابھی لگام نہ ڈالی تو ایسی ہی زبان ہو جائے گی کل کو جب سسرال جائے گی تو چھتر پڑیں گے دادی کو ان کی بات بری لگی بس کر دو اب ایسا بھی کیا ہو گیا ہے اور تم اس کی فکر نہ کرو میں اس کا رشتہ ایسے جگہ کروں گی جو اس سے محبت کرتا ہوگا لاج نے حیرانگی سے پلٹ کر اپنی آزاد خیال دادی کو دیکھا بی جان نے اپنی زبان دانتوں میں دبالی کس کے سامنے کہہ دیا انہیں نے خود کو ڈانٹا


     تم جاؤ اب یہ بال باندھوں اور سر پہ دوپٹہ لے کر بیٹھو دارین آئے گا تو غصہ کرے گا دادی نے بات بدلی لاج نے سر نا میں ہلایا پہلے بات مکمل کریں وہ ضد کرنے لگی ان کے پاس بیٹھ گئ شری ہلکا سا سر جھٹکتی کچن میں چلی گئ


    سدرہ بھی لاج کے قریب آ کر بیٹھ گئی تھی بی جان کے لئے لاج اور سدرہ ایک جیسی ہی تھی شرفہ ان کی پرانی ملازمہ تھی اس کے بچوں سے کبھی بی جان نے فرق نہیں رکھا تھا اور پھوپھو اب منہ میں کچھ بڑھ بڑھاتی اٹھ کر کمرے کی جانب چلی گئی تھی


     بی جان نے لاج کا کان پکڑا تمہیں اب لگ رہا ہے مجھ سے مار کھانی ہے جو کہہ رہی ہوں 


    جا کر دیکھو مغرب ہونے والی ہے اب دارین آ جائے گا لاج کو پتہ چل گیا دادی بات مکمل نہیں کریں گے اس لئے سر جھٹک کر کھڑی ہو گئی میں ابھی بال باندھ لوں گی پر اس سے پہلے میں نے لون میں جانا ہے مجھے ایک کام ہے اس نے سدرہ کو کہنی ماری تو وہ جلدی سے کھڑی ہو گئی لاج پہلے وہ کرو جو کہا ہے اس نے سر ہلایا سب کروں گی لیکن پہلے وہ کرو جو میں نے سوچا ہے وہ کہہ کر پلٹ گئی دادی پیچھے سے اس سے ڈانٹ رہی تھی لیکن وہ تقریباً بھاگنے والے انداز سے لاؤنج سے نک رہی تھی ابھی وہ رہ داری کے سرے پہ ہی پہنچی تھی کہ دارین اچانک سے اس کے سامنے آ گیا اور وہ اس کے سینے سے ٹکرا کر گر جاتی ہے اگر وہ اس کا بازو نہ پکڑ لیتا لاج کے کھلے لمبے بال جھٹکے سے بکھر گئے اور اس نے سختی سے آنکھیں میچ لیں اسے لگا تھا وہ گر جائے گی پھر اس نے دھیرے دھیرے سے آنکھیں کھولی شاہ کو دیکھا پھر فرش کو دیکھا سینے پہ ہاتھ رکھا شکر ہے گری نہیں اس نے سکون کا سانس لیا اور کھڑی ہو گئی شاہ کے ہاتھ میں ویسے ہی اس کا بازو تھا وہ سنجیدگی سے اسے دیکھ رہا تھا جو اب چہرہ اٹھا کر شاہ کی سیاہ آنکھوں میں تک رہی تھی کہاں جا رہی تھی وہ گھمبیر لہجے سے بولا لاج نے پلٹ کر دیکھا اس کی دوست بھاگ چکی تھی اور دادی بھی اٹھ کر شاید وضو کرنے چلی گئی تھی میدان بلکل خالی تھا بچانے والا کوئی نہیں تھا اس کی جان نکلنے لگی


     شاہ باہر جا رہی تھی اس کی آواز گھٹنے لگی اس نے اپنے بازو چھڑانا چاہا لیکن شاہ اسے سنجیدگی سے دیکھتا رہا اس وقت لاج نے تھوک نکلا نہیں مجھے مجھے کمرے میں جانا ہے اس کی ساری ہوا نکل گئی تھی ابھی جو ملکہ بنی گھوم رہی تھی اب اس کا خود کا دم نکلنے کو ہو رہا تھا تمہیں پتا ہے باہر مغرب کی ازانیں ہو رہی ہیں اور تمہارا دوپٹہ بھی نہیں ہے تمہارے پاس لاج نے اسے دیکھا پھر اس کی نظریں پھسل کر شاہ کی کاندھوں کی شال پر رک گئیں


     اس نے ازاد بازو سے شاہ کی شال کھینچی اور سر دھانپ لیا اب آپ کی شال سے ڈھانپ لیتی ہوں پھر دوپٹے سے ڈھانپ لوں گی کچن سے نکلی شری نے اپنا سر پیٹھ لیا اور شاہ گہرا سانس بھر کے رہ گیا جاؤ اپنی کمرے میں میں اب تمہیں ایسے نہ دیکھ لوں چلو جاؤ شاباش آخر میں اس نے کچھ نرمی سے کہا لاج نے سکون کا سانس لیا جیسے اس کا اب سانس بحال ہوا ہو


     وہ آہستہ سے آگے بڑھی اور دارین شاہ کے شانوں پر موجود اس کی کالی شال اپنے گرد لپیٹ کر آگے بڑھ گئی اس کے بال چہرے پہ آ رہے تھے اس نے چند قدم آگے بڑھا کر پلٹ کر شاہ کو دیکھا وہ اسے ہی دیکھ رہا تھا لاج کو لگا وہ اسے گھور رہا ہے اس لئے جلدی جلدی قدم اٹھاتی سیڑھیوں پہ چڑ گئی اس کے جانے کے بعد شاہ نے سر جھٹکا اور لاؤنج میں آ کر صوفے پہ بیٹھ گیا شری تب اس کے پاس آئی تھی


     چائے لاؤں شاہ آنکھیں بند کر کے صوفے سے سر ٹکاۓ بیٹھا تھا چائے شری کی آواز پر اس نے آنکھیں کھولی


     نہیں ابھی نہیں میں ابھی فریش ہوں گا پھر کھانے کے بعد سلونی رنگت ملے دراز قد لڑکی نے سر کو خم دیا بنگال کا حسن اپنی آنکھوں میں بھڑ لینے کے بعد وہ لڑکی شاہ کو محبت سے تک رہی تھی دل کے کسی گوشے میں ہر دم یہ خواہش رہتی تھی کہ وہ شاہ کے قریب رہے اتنا کہ شاہ بس اس کا ہو جائے میں نے آپ کے کپڑے نکال دیئے وہ اس کی سارے کام خود کرتی تھی اور اب شاہ کو بھی عادت سی ہو گئی تھی جب بھی اسے کچھ نہ ملتا وہ شری کو آواز لگاتا لاج زیادہ تنگ کرتی تو وہ شری کے حوالے کر کے کہتا اسے سمجھاؤ اور شری لاج کو تب تک سمجھاتی جب تک وہ مان نہ جاتی شری چاہتی تھی کہ شاہ بلکل پریشان نہ ہو


     شاہ تب ہی لاج کے معاملے میں زیادہ فکر مند بھی نہیں رہتا تھا شاہ شری کی آنے کے بعد اس نے لاج کو کافی اچھے سے سنبھال لیا تھا اور بہت حد تک شاہ کو بھی 


    شاہ اس کے بتانے پر سر کو جنبش دیتا کھڑا ہو گیا میں فریش ہونے جا رہا ہوں وہ بتا کر اوپر اپنے کمرے کی جانب چلا گیا شری کی نظرے اب اسی کو دیکھ رہیں تھی وہ کھل کر اب سانس لے گی گھر میں شاہ کی خوشبو بکھر گئی تھی وہ جب کمرے میں جا رہا تھا اس وقت لاج اپنی کمرے سے باہر نکل رہی تھی وہ اپنے دوپٹے میں اُلجی اُلچی سی چیڑ رہی تھی بڑے سے دوپٹے کو اس نے اپنے گرد لپیٹ رکھا تھا لیکن سر پہ وہ پھر بھی نہیں تھا بال وہ باندھ چکی تھی اس نے جب شاہ کو دیکھا تو ٹھٹک کر رک گئی لگتا ہے اب پھر یہ ڈانٹیں گے دل میں سوچا پھر جلدی سے بولی شاہ میں نے بال بھی باندھ لیا اور سر پہ دوپٹہ بھی لے لیا اس نے بے اڈب طریقے سے دوپٹے کا سرہ سر پہ جمایا


     شاہ قدم قدم چلتا اس کے سامنے آ کر رک گیا لاج نے لبوں پہ زبان پھیری میں نے پھوپھو کی لپسٹک نہیں لگائی پھوپھو کی قسم شاہ وہ جب بھی جھوٹ بولتی پھوپھو کی قسم کھا لیتی تھی شاہ نے ہاتھ بڑھا کر اس کا دوپٹہ اس کے گرد سے اتارا پھر اسے اچھے سے اس کے سر پہ ڈال کر اس نے لاج کی تھوڑی پکڑی جھوٹی قسمیں نہیں کھاتے آخری بار کہہ رہا ہوں یہ میں تمہیں لاج کے وجود میں لرزش ہونے لگی تھی شاہ کو لگا اتنا کافی ہے اس لئے وہ پلٹ کر اپنے کمرے میں چلا گیا لاج نے دوپٹہ سر سے اتارا چٹیاں آگے کی پھر سینے پہ ہاتھ رکھا سکون کا سانس لیا جھوٹ کہاں کہہ رہی تھی جب لگائی ہی نہیں لپ سٹیک یہ رنگ تو قدرتی ہے سب کے ہونٹ گلابی ہوتے ہیں لاج کے اکثر محرون ہو جاتے تھے پر خیر اس نے سر جھٹکا شاہ کی تو عادت ہے کہہ کر وہ اچھلتی کودتی سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی شاہ کے کمرے کے سامنے اس نے رفتار دھیمی کی قدموں کو پھوک کر رکھا اور جب سیڑھیوں تک پہنچی تو بھاگ کر نیچے اترنے لگی اگر دارین شاہ اس وقت اسے دیکھ لیتا تو اس کی کلاچ پھر لگتی پر وہ بھی اپنے کمرے میں تھا 


    فریش ہونے کے بعد جب وہ اپنے بال درست کر رہا تھا تو اس کی نظریں دیوار اویز تصویر پر پڑی اس کی مرحوم والدین اور لاج کے والدین جو اب اس دنیا میں نہیں تھے ان کی اچانک موت نے کتنا کچھ بدل کر رکھ دیا تھا اور ان سب میں جو چیز سب سے زیادہ بدلی وہ لاج اور شاہ کا رشتہ تھی شاہ جب بھی اپنی بات سوچتا تو اس کرب سے آنکھیں میچ لیتا لاج سات سال کی جب اس کا نکاح دارین سے بی جان نے کروا دیا تھا اسے وہ دن آج بھی نہیں بھولتا تھا جب بی جان نے اسے رات میں اپنے کمرے میں بلایا تھا وہ پہلے ہی ساختہ تھا اچانک سے ہونے والی اتنی بڑی بات نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا وہ شکستہ قدموں سے بی جان کے پاس آیا تھا لیکن جو بی جان نے کہا اس بات نے اسے اور بھی شل کر دیا تھا میں آج تمہارا نکاح لاج سے کر رہی ہوں اس نے بی جان کو صدمے سے دیکھا یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں بی جان نے سر ہلایا ان کی آنکھیں سوجی ہوئی تھی وہ کئی دنوں سے رو رہی تھی اتنے دنوں کے بعد یہ پہلی گفتگو تھی جو انہوں نے کسی کے ساتھ کی تھی ورنہ مرنے والوں کے ساتھ یوں لگتا تھا اس حویلی کے سارے لوگ مر گئے بس ایک لاج زندہ تھی جو اس وقت دارین کے کمرے میں سو رہی تھی وہ اکیلے سونے سے ڈرتی تھی اس لئے کبھی دارین کے پاس چلی جاتی تو کبھی بی جان کے پاس


     میں ٹھیک کہہ رہی ہوں اس بچی کا اب اس دنیا میں کوئی بھی نہیں ہے دارین میں تمہیں بس ابھی یہی کہوں گی کہ تم لاج سے نکاح کر لو میں بے فکر ہو جاؤں گی جیسے اس گھر کا رخ موت نے کیا ہے میں ڈر گئی ہوں مجھے اپنی زندگی کا بھروسہ نہیں رہا تم بس لاج سے نکاح کر لو بی جان کا لہجہ بکھرا ہوا تھا دارین انہیں ویسے ہی دیکھ رہا تھا بی جان ایسے کیسے ہو سکتا ہے وہ مجھ سے بیس سال چھوٹی ہے آپ سمجھتے ہیں بیس سال ایک بہت بڑا ایج گیپ ہوتا ہے میرے بچوں جیسی ہے میں کیسے اسے سوچ کر ہی شرم آ رہی تھی لیکن بی جان اپنی بات پر میسر تھی تم یہ میرا حکم سمجھو دارین تمہیں لاج سے نکاح کرنا ہی ہوگا 


    ایسی بھی کیا جلدی ہے دادی میں اس کا ایسے ہی خیال رکھوں گا آپ کیوں فکر کرتی ہیں بی جان کو وہ قائل کرنے کی کوشش کر رہا تھا 


    تم سے جو میں نے کہا ہے تم مجھے اس کا جواب دو تم لاج سے نکاح کر رہے ہو یا نہیں وہ بی جان کا چہرہ دیکھتا رہا پھر اس نے سر نا میں ہلا دیا معذرت بی جان بی جان کا چہرہ سپارٹ تھا انہوں نے سر ہلایا ٹھیک ہے پھر میں آج یہ گھر چھوڑ کر چلی جاؤں گی لاج کو میں اپنے ساتھ لے کر جاؤں گی دارین نے انہیں تاجب سے دیکھا


     کیا آپ کیا کہہ رہی ہیں ایک دم سے آپ کے دماغ میں یہ کیا بات آگئی بی جان کل تک تو سب ٹھیک تھا 


    ہاں کل سب ٹھیک تھا آج سب تمہارے سامنے ہیں تو مجھے میرے سوال کا جواب دو نکاح کر رہے ہو یا رشتہ ختم کرو گے دارین کو لگا وہ کبھی بھول نہیں سکے گا کچھ دیر بعد بی جان کے ساتھ لاؤنج میں بی جان کی انگلی تھام کر لاج داخل ہوئی لاؤنج میں مولوی اور کچھ گوا بیٹھے تھے


     دارین شاہ سپارٹ چہرے سے کانچ کی میز کو گھو رہا تھا ساتھ سالہ لاج چلتی ہوئی دارین شاہ کے پاس آئ بی جان سے آگے لے کر وہ جانا چاہتی تھی لیکن اس نے کہا مجھے شاہ کی گود میں بیٹھنا ہے دارین شاہ نے اس بات پر کرب سے آنکھیں میچ لیں کچھ دیر میں یہ ساتھ سالہ لڑکی اس کی بیوی بن جائے گی دارین شاہ کو لگا یہی قیامت کا دن ہے لاج دھیرے سے اس کے گھٹنے پر بیٹھ کر اس کے بازو کو تھام چکی تھی دارین کا وجود برف کا پتلا بن کے رہ گیا تھا وہ جب بھی اسے یاد آتا تھا اس کا دکھ تازہ ہو جاتا تھا


     اسے لاج سے محبت تھی لیکن یہ محبت دوسری تھی اور جب سے اس کا نکاخ لاج سے ہوا تھا اس کا انداز لاج سے سرد ہو گیا تھا وہ اسے ڈانٹ دیا کرتا تھا اس کی کسی بات پر وہ اتنا غصے میں آ جاتا تھا کہ اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ لاج کے منہ پر تھپڑ رسید کر دے وہ خود اس بات پر حیران ہو جاتا تھا کہ وہ اب لاج پر اتنا غصہ کیوں کرتا ہے یا شاید وہ یہ چاہتا تھا کہ لاج سمجھدار ہو جائے لیکن ایسا اسے ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا تھا 






    No comments

    Post Top Ad

    Post Bottom Ad

    ad728