Khas Dillon Ko Romantic Urdu Poetry
Khas Dilaon Ko Romantic Urdu Poetry
کچھ خاص دلوں کو خدا چنتا ھے محبت کے لیے
ورنہ محبت ہر کسی کے نصیب میں نہیں ھوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر شام ہی میں نے ایک خواب دیکھا
اجڑے باغ میں کھلتا ایک گلاب دیکھا
کانٹوں بھرے اس گلاب کی روح کو
اسے آج پہلی دفعہ بے نقاب دیکھا
تھے کانٹے بھی آبدیدہ اس پھول کے درد پر
یوں کانٹوں کی دنیا میں انقلاب دیکھا
میں منتظر تھا کہ اس کی مہک مجھ تک پہنچے
اس کی بے بسی پر اپنا جواب دیکھا
پھر بیٹھ گیا اس اجڑے باغ کی دہلیز پر
میں نے آنسوؤں سے ھوتا اسے سیراب دیکھا
۔۔۔۔۔۔۔
وہ میرے پیار کے قابل ہی نہ تھا
کیوں انتظار کیا وہ وفا کے قابل ہی نہ تھا
انجانے میں اسے وفا کا دیوتا سمجھ بیٹھے ہم
وہ تو انسان کہلانے کے قابل ہی نہ تھا
اس کی رفاقت کیلئے کیا کچھ نہیں کیا ہم نے
وہ تھا اک دھوکا اعتبار کے قابل ہی نہ تھا
قدم قدم پر اس نے اتنے جھوٹ بولے
وہ تھا اک جھوٹ سمجھنے کے قابل ہی نہ تھا
میری محبت کو پامال کیا اس نے
وہ میرے دل میں رھنے کے قابل ہی نہ تھا
۔۔۔۔۔۔
تیرے ھونٹوں کی خاموشی مجھے اچھی نہیں لگتی
تیری معصوم آنکھوں میں نمی ابھی نہیں لگتی
یوں مدھوشی میں مجھ سے پوچھتے ھو معنی الفت کے
یہ سادگی تیری ہمیں اچھی نہیں لگتی
سجا کر آنکھ میں کاجل نہ دیکھیں آئینے کو یوں
ہمیں یہ بے حجابی بھی صنم اچھی نہیں لگتی
میری جان میرا سپنا بن کر آنکھوں میں اتر جانا
یہ دور اور مجبوری ہمیں اچھی نہیں لگتی
۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یہ دعا دیا کرو کبھی بے بسی ناتمام ھو
تمہیں بھولنا کہاں بس میں ھے
میں یہ چاھوں چاھوں مجھے صنم
مجھے خود سے نہ تم جدا کرو
تیرے بن میں زندہ نہیں صنم
میرے جسم میں تم بسا کرو
مجھے لمحہ لمحہ نہ موت دو
مجھے لمحہ بھر میں فنا کرو
میرا دکھ تیرا سکھ بنے
مجھے دکھ ہی تم یاد کرو
۔۔۔۔۔۔۔
تیرے بعد کیا اے بے وفا قرار ھو مجھ کو
جو کبھی ختم نہ ھونے گیا وہ عذاب مجھ کو
ھوا ھوں کرچی کرچی میں تیری جدائی میں
ہزار ٹکڑوں میں بکھر گیا ھوں سمیٹ لو مجھ کو
سر شام وہ تیری یاد میں سسکتے ھیں
چمٹ گئے ھیں بنا تیرے دکھ جو مجھ کو
نزع کے عالم میں یاد ھے منظر تیری جدائی کا
قسم ھے تمہیں میری جاں اور نہ دکھ دو مجھ کو
۔۔۔۔۔۔
جب مر گیا میں تو تم جشن مناؤ
اگر تیش میں آیا تو تم میری میت کو جلاؤ
اگر تجھے میرے مرنے کا پتہ نہ چلا
تو بعد میں میری کفن کے ٹکڑے چن کر جلاؤ
اگر تجھے میرے کفن کے ٹکڑے بھی نہ ملے
تو تم اس کے بعد میری قبر میں آکر میری قبر کے پردے کو جلاؤ
اس کے بعد تم اپنے گھر جا کر
میرے پرانوں خطوں کو جلاؤ
اگر کبھی میں تیرے خوابوں میں آؤں
تو تم مجھے خوابوں میں جلاؤ
اگر کوئی تم سے یہ پوچھے بخش اسیر کون تھا جو مر گیا
تو تم اس کو بھی میری طرح جلاؤ
اگر تمہیں پھر بھی چین نہ آئے تو تم
کاغذوں پر میرا نام لکھ لکھ کر جلاؤ
۔۔۔۔۔۔
اس نے اب کے بعد نئے چاند کو دیکھا ھو گآ
اٹھا کر ھاتھ پھر رب سے مجھے مانگا ھو گا
سنی ھو گی جب دعا چاند ھنس دیا ھو گا
خدا نے اس کی دعا سن لی ھو گی فورا ہی
خوشی خوشی سبھی یاروں کو بتایا ھوگا
پر کوئی وہم بھی اس کے دل میں سمایا ھو گا
ان کہے خوف نے جی بھر کے ستایا ھو گا
۔۔۔۔۔۔
No comments