Ak Anmool Rishta Maa By Malisha Rana Story
Ak Anmool Rishta Maa By Malisha Rana Story
Reading Online
اسلام و علیکم ایوری ون کیسے ہے آپ سب لوگ امید کرتی ہو کی بلکل ٹھیک ٹھاک ہو گے آپ سب آج کا ہمارا موضوع بہت بہت بہت دکھی اور پیارا ہے کیونکی جس بارے میں ہمارا آج کا موضوع ہے ان کی ہماری زندگی میں بہت بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے مطلب کے آپ ایسا سمجھ لے کی اگر یہ رشتہ ہمارے پاس نا ہو تو اس سے زیادہ بد نصیب اور غریب انسان اور کوئ بھی نہیں ہو سکتا
تو اب تک آپ شاید سمجھ ہی گۓ ہو گے آپ کی میں کن کے بارے میں بتا رہی ہو ہماری زندگی کی سب سے قیمتی رشتے کے بارے میں ایک ایسی کہانی بتانے والی ہو جو آپ کا دل اداس کر دے گی ہماری ماں ہمارے لیے پوری زندگی اتنی قربانیاں دیتی ہے جس کا اگر ہم حصاب لگانے کی کوشش کرے تو شاید پوری زندگی لگ جاۓ
کیونکی ماں وہ چیز ہوتی ہے جو خود تو بڑی سے بڑی تکلیف کو بھی برداشت کر لے گی مگر اگر ان کی اولاد کو تھوڑی سی بھی کوئ تکلیف آ جاۓ تو ان کی جان پر بن آتی ہے
کیونکی اگر انسان کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ بھی جاۓ تو ماں اپنے بچوں کو پالنے کے لیے کچھ بھی کر جاتی ہے لیکن زیادہ تر اگر ماں کا سایہ بچوں سے اٹھ جاۓ تو ان کی پوری زندگی برباد ہو جاتی ہے کیونکی کبھی بھی باپ ماں کی جگہ اپنے بچوں کو پال نہیں سکتے اتنا صبر صرف اور صرف ماں میں ہی ہوتا تو اب چلیں چل کر آج ہم ایک بہت ہی پیاری اور ماں کی ممتا سے بھرپور کہانی پڑھتے ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نسرین آج پھر سے اپنے بیٹے کے لیے ٹفن تیار کر رہی تھی کیونکی امجد آج پھر سے ٹفن گھر پر ہی بھول گیا تھا
اور نسرین اپنے بیٹے کو کیسے بھوکا رہنے دے سکتی ہے کیونکی نسرین کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے کی وہ اپنے بیٹے کو خرچے کے لیے دے سکے تو ایک ہاتھ میں ٹفن پکڑ اور دوسرے میں سٹک کو پکڑے آنکھوں پر چشمہ لگاۓ نسرین رکشے میں بیٹھ امجد کے سکول چلی گئ
سکول پہنچتے ہی واچ مین سے نسرین نے اپنے بیٹے امجد کو بلانے کے لیے کہا
واچ مین اندر جا کر امجد کو بلانے چلا گیا امجد نے اچھا آتا ہو کہہ دیا اور واچ مین باہر آ کر نسرین سے انتظار کرنے کے لیے کہہ دیا
نسرین کافی دیر ہو چکی تھی وہی پر اتنی گرمی میں کھڑی امجد کا انتظار کرے جاۓ لیکن امجد ابھی تک باہر نہیں آیا تھا
کی اتنے میں چٹھی کا وقت ہو گیا اور سبھی بچے اپنے اپنے گھر جانے لگ گۓ کور امجد بھی سکول کے گیٹ سے باہر نکل آیا
بیٹا اب تو چٹھی ہی ہو گئ ہے کیوں تم اتنی دیر سے آۓ ہو
اماں تم کیوں آتی ہو یہاں پر
بیٹا وہ تم ٹفن بھول گۓ تھے اس لیے ٹفن دینے آئ تھی تیرے پسند کی بھنڈی بنائ ہے میں نے
اماں پہلی بات تو یہ کی روزانہ بھنڈی کدو کے سو بنتا ہی کیا ہے اب تو خوابوں میں بھی یہی سب دیکھتا ہے اور دوسری بات کے میں اگر آج کچھ نا بھی کھاتا تو مر نہیں جانا تھا
بیٹا ایسی بات تو مت کرے اللہ نا کرے میرے بیٹے کو کچھ بھی ہو اللہ میری زندگی بھی تمہیں لگا دے
بس کرے اماں مزاق اڑاتے ہے سبھی دوست میرا جب بھی آپ یہاں آتی ہے
بیٹا مزاق کیوں اڑاتے ہے وہ
کیوں اندھی ہے آپ دیکھائ تو کچھ دیتا نہیں ہے آپ کو آپ کو پتا ہے سکول میں آپ کی نقلیں اتار اتار کر چیڑاتے ہے مجھ کو اور مجھ سے سوال کرتے ہے کی تمہاری ماں کھانا کیسے بناتی ہے بھلا کھانے میں چپکلی گر جاتی ہو اور تم کھا لیتے ہو
اس لیے بس کر دے مت آیا کرے یہاں پر اور اکیلا اپنے گھر نکل گیا
نسرین بیگم آنسیوں کو صاف کر آہستہ آہستہ اپنے گھر چلی گئ
شام کو امجد اپنے بمرے میں بیٹھا تھا تو نسرین بیگم کھانا لے کر چلی گئ بیٹا یہ تھوڑا سا ہی کھانا کھا لو
اماں کیا مسلۂ ہے آپ کا ہر وقت میری جان کے پیچھے ہی پڑی رہتی ہے نہیں کھانا مجھے کچھ بھی اور زور سے پلیٹ کو زمین پر دے مارا
نسرین بیگم کھانے کو زمین سے اٹھا کر کمرے سے چلی گئ اور خود بھی بھوکی ہی صحن میں بیٹھی اللہ کو یاد کر رونے لگ گئ
یا خدا میرے بچے کو معاف کر دیجیے گا کیونکی اس کا غصہ ہونا بھی جاۂز ہے کیونکی بچپن سے لے کر اب تک میں نے دیا ہی کیا ہے اسے اس کا باپ بھی ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے بابا کی پینشن پر کتنا مشکل سے گھر ہک صرف چلتا ہے ایک ساۂکل تک تو لینے کی اوقات نہیں ہے میری اور ساری رات وہ اسی بارے میں ہی سوچتی رہی
کچھ دنوں سے امجد سارا سارا دن اور آدھی آدھی رات تک کسی کے ساتھ پھرتا رہتا نسرین بیگم جب بھی پوچھتی تو کوئ نا کوئ بکواس کر کے انہیں چپ کروا دیتا
ایک دن نسرین بیگم کے پڑوسی نے آ کر نسرین بیگم کو بتایا کے آپ کا بیٹا محلے میں وہ جو آصف نہیں رہتا اس کے ساتھ پھرتا رہتا ہے
جس پر نسرین بیگم بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئ کیونکی آصف ایک گنڈہ موالی تھا جو کے ہر قسم کے نشے کرتا اور ایک آدھے کو مارنے کا بھی الزام ہے اس پر
جب رات کو امجد گھر آیا تو نسرین بیگم نے غصے سے کہا تم آصف سے مل رہے ہو
اماں تجھے کیسے پتا تجھے تو دیکھائ بھی نہیں دیتا ہے
امجد نشے میں تھا
امجد تو نے نشہ کیا ہوا ہے تجھے شرم نہیں آتی بے شرم
ہاں نہیں آتی شرم اور دیکھ اماں یہ اپنی چیخ چیخ بند کر مجھے سونے دے کور اپنے یمرے میں چلا گیا
نسرین بيگم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کی وہ کیا کرے کیسے اپنے بیٹے کو بچاۓ
ہر وقت وہ امجد سے ایک ہی بات کہتی بیٹا میں تیرے آگے ہاتھ جوڈتی ہو اس آصف کو چھوڑ دے وہ تجھے برباد کر دے گا
لیکن امجد پر جو تک بھی نا رینگتھی
ایک دن آصف اور امجد اپنے گھر لے آیا
اماں جلدی سے ہمیں کھانا لے دیں بڑی بھوک لگی ہے
امجد کون ہے تیرے ساتھ
اماں آصف آیا ہے
امجد رہنے دے پہلے خالہ کو کچھ دیکھائ نہیں دیتا ہے پتا نہیں کیا بنا کر لا دے اس لیے چھوڑ
نہیں اماں ہر چیز ٹھیک بناتی ہے اماں جلدی لے آ
تیرے اتنی ہمت جو اب ہمارےگھر بھی پہنچ آیا نکل ہمارے گھر سے اور دوبارہ اگر میرے بیٹے کے آس پاس بھی دیکھائ دیا تو تیری ٹانگیں توڑ دو گی تجھ جیسے انسان کو تو تیرے ماں باپ بھی بد دعاۂیں دیتے ہو گے اور وہ سب بھی جن جن کی اولادوں کو تو بیگھاڑتا ہے
امجد یہ کروانے کے لیے تو آیا تھا اور غصے سے آصف گھر سے نکل گیا
اماں تو کیوں ایک منحوس سیاہ بن کر میرے پیچھے پڑی رہتی ہے اب میرا ایک ہی دوست تھا اسے بھی ناراض کر دیا اور خود بھی امجد آصف کے پیچھے چلا گیا
صبح امجد واپس گھر پھر سے نشے میں ڈوب کر آیا
جس پر نسرین بیگم نے ایک تپھڑ دے مارا کتنا تو بے شرم ہے
تیرے لیے میں نے اتنا سب کچھ کیا اور تو یہ سب دیکھا رہا ہے
اماں مجھے پیسے دے
کیا کہا اب مجھے بیچ دے
آدھی رات کو تیزی سے کوئ دروازے پر دستک دے رہا تھا نسرین بیگم نے کون پوچھا تو امجد نے خوفناک آواز میں جلدی سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا
کیا ہوا ہے بیٹا تم ٹھیک تو ہو نے ٹینشن سے نسرین بیگم نے سوال کیا
اماں مجھے چپھا لے وہ وہ
کیا ہوا مجھے ٹھیک ٹھیک بتا امجد
اماں وہ میںےآصف کے پیچھے جب گیا تھا تو آصف کافی غصے میں تھے اور وہ آپ کے بارے میں الٹا سیدھا بولے جا رہا تھا
میں نے اسے خاموش رہنے کے لیے کہا لیکن پھر سے وہ آپ کے بارے میں بکواس کرے ہی جا رہا تھا تو میں نے اس کے منہ پر ایک تپھڑ دے مارا
اور آصف نے بندوق نکال مجھ پر تان لی بامشکل میں وہاں سے بھاگ کر یہاں پر آیا ہو
وہ وہ شاید اب یہی پر ہی آ رہا ہو گا
تو رک میں اب پولیس کو کال کرتی ہو کی آصف آ گیا اور امجد پر گولی چلانے لگا
لیک نسرین بیگم آگے آ گئ اور وہ گولی نسرین کو لگ گئ
گولی کی آواز پر سارا محلہ اکٹھا ہو گیا اور آصف وہاں سے بھاگ گیا
امجد جلدی سے نسرین کو ہوسپٹل لے گیا
اور دعاۂیں کرنے لگ گیا کی اتنے میں ایک ڈاکٹر آیا جو کے نسرین بیگم کا آپریشن کرنے کے لیے آیا تھا جب اس نے نسرین کو دیکھا تو حیرانگی سے کہا یہ تو وہی ہے جنہوں نے اپنے بیٹے کو آنکھیں دی تھی
کیا ڈاکٹر صاحب کیا کہہ رہے ہے آپ
بیٹا تم کیا لگتے ہو ان کے
م م م میری اماں ہے
کیا وہ تم ہو تم ہی پیداۂشی اندھیں تھے اور یہ تکلیف تمہاری ماں بردشات نہیں کر سکی کی میرا بیٹا کیا اندھا ہی پوری زندگی گزارے گا
اس لیے اتنے پیسے تو ان کے پاس تھے نہیں کی وہ کہی سے آنھکھیں خرید سکے تو اس لیے انہوں نے اپنی آنکھیں تمہیں دے دی
ڈاکٹر کی باتیں سن امجد زمین پر گر گیا ی ی یہ کیا بات کر رہے ہے آپ ڈاکٹر صاحب پلیز میری اماں کو ٹھیک کر دے پلیز
ہم پوری کوشش کرے گے لیکن کچھ دیر بعد ڈاکٹر آپریشن ٹیٹر سے باہر آیا
سوری ہم آپ کی ماں کو بچا نہیں سکے
نہیں نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا اور جلدی سے آپریشن ٹیٹر چلا گیا
اماں اماں پلیز ایک مرتبہ اٹھ جاۓ مجھے آپ سے معافی مانگنی ہے م م میں اس بوجھ کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکو گا پلیز
اماں اماں نہیں لیکن نسرین کب کی اس دنیا اور اس دنیا کی مشکلات سے دوررر جا چکی تھی
اور امجد جو کے پوری عمر اپنی ماں کق کوستا رہتا کو آج جب حقیقت معلوم ہوئ تب تک وہ جا چکی تھی اور امجد ان سے ایک مرتبہ معافی بھی نا مانگ سکا
تو کیسی لگی آپ کو یہ کہانی ماں کا وہ رشتہ ہوتا ہے جن کے بغیر رہنا شاید بچوں کے لیے بہت بہت بہت مشکل ہو لیکن جن کے پاس یہ نمعت ہوتی ہے وہ ان کی قدر نہیں کرتے آپ کی ماں آپ کی سب سے انمول چیز ہوتی ہے ان کی قدر کرنا آپ کا فرض ہے کیونکی ماں کے بغیر گھر بھی قبرستان جیسا ہوتا ہے آجکے لیے خدا حافظ
تو اب تک آپ شاید سمجھ ہی گۓ ہو گے آپ کی میں کن کے بارے میں بتا رہی ہو ہماری زندگی کی سب سے قیمتی رشتے کے بارے میں ایک ایسی کہانی بتانے والی ہو جو آپ کا دل اداس کر دے گی ہماری ماں ہمارے لیے پوری زندگی اتنی قربانیاں دیتی ہے جس کا اگر ہم حصاب لگانے کی کوشش کرے تو شاید پوری زندگی لگ جاۓ
کیونکی ماں وہ چیز ہوتی ہے جو خود تو بڑی سے بڑی تکلیف کو بھی برداشت کر لے گی مگر اگر ان کی اولاد کو تھوڑی سی بھی کوئ تکلیف آ جاۓ تو ان کی جان پر بن آتی ہے
کیونکی اگر انسان کے سر سے باپ کا سایہ اٹھ بھی جاۓ تو ماں اپنے بچوں کو پالنے کے لیے کچھ بھی کر جاتی ہے لیکن زیادہ تر اگر ماں کا سایہ بچوں سے اٹھ جاۓ تو ان کی پوری زندگی برباد ہو جاتی ہے کیونکی کبھی بھی باپ ماں کی جگہ اپنے بچوں کو پال نہیں سکتے اتنا صبر صرف اور صرف ماں میں ہی ہوتا تو اب چلیں چل کر آج ہم ایک بہت ہی پیاری اور ماں کی ممتا سے بھرپور کہانی پڑھتے ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
نسرین آج پھر سے اپنے بیٹے کے لیے ٹفن تیار کر رہی تھی کیونکی امجد آج پھر سے ٹفن گھر پر ہی بھول گیا تھا
اور نسرین اپنے بیٹے کو کیسے بھوکا رہنے دے سکتی ہے کیونکی نسرین کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں ہوتے تھے کی وہ اپنے بیٹے کو خرچے کے لیے دے سکے تو ایک ہاتھ میں ٹفن پکڑ اور دوسرے میں سٹک کو پکڑے آنکھوں پر چشمہ لگاۓ نسرین رکشے میں بیٹھ امجد کے سکول چلی گئ
سکول پہنچتے ہی واچ مین سے نسرین نے اپنے بیٹے امجد کو بلانے کے لیے کہا
واچ مین اندر جا کر امجد کو بلانے چلا گیا امجد نے اچھا آتا ہو کہہ دیا اور واچ مین باہر آ کر نسرین سے انتظار کرنے کے لیے کہہ دیا
نسرین کافی دیر ہو چکی تھی وہی پر اتنی گرمی میں کھڑی امجد کا انتظار کرے جاۓ لیکن امجد ابھی تک باہر نہیں آیا تھا
کی اتنے میں چٹھی کا وقت ہو گیا اور سبھی بچے اپنے اپنے گھر جانے لگ گۓ کور امجد بھی سکول کے گیٹ سے باہر نکل آیا
بیٹا اب تو چٹھی ہی ہو گئ ہے کیوں تم اتنی دیر سے آۓ ہو
اماں تم کیوں آتی ہو یہاں پر
بیٹا وہ تم ٹفن بھول گۓ تھے اس لیے ٹفن دینے آئ تھی تیرے پسند کی بھنڈی بنائ ہے میں نے
اماں پہلی بات تو یہ کی روزانہ بھنڈی کدو کے سو بنتا ہی کیا ہے اب تو خوابوں میں بھی یہی سب دیکھتا ہے اور دوسری بات کے میں اگر آج کچھ نا بھی کھاتا تو مر نہیں جانا تھا
بیٹا ایسی بات تو مت کرے اللہ نا کرے میرے بیٹے کو کچھ بھی ہو اللہ میری زندگی بھی تمہیں لگا دے
بس کرے اماں مزاق اڑاتے ہے سبھی دوست میرا جب بھی آپ یہاں آتی ہے
بیٹا مزاق کیوں اڑاتے ہے وہ
کیوں اندھی ہے آپ دیکھائ تو کچھ دیتا نہیں ہے آپ کو آپ کو پتا ہے سکول میں آپ کی نقلیں اتار اتار کر چیڑاتے ہے مجھ کو اور مجھ سے سوال کرتے ہے کی تمہاری ماں کھانا کیسے بناتی ہے بھلا کھانے میں چپکلی گر جاتی ہو اور تم کھا لیتے ہو
اس لیے بس کر دے مت آیا کرے یہاں پر اور اکیلا اپنے گھر نکل گیا
نسرین بیگم آنسیوں کو صاف کر آہستہ آہستہ اپنے گھر چلی گئ
شام کو امجد اپنے بمرے میں بیٹھا تھا تو نسرین بیگم کھانا لے کر چلی گئ بیٹا یہ تھوڑا سا ہی کھانا کھا لو
اماں کیا مسلۂ ہے آپ کا ہر وقت میری جان کے پیچھے ہی پڑی رہتی ہے نہیں کھانا مجھے کچھ بھی اور زور سے پلیٹ کو زمین پر دے مارا
نسرین بیگم کھانے کو زمین سے اٹھا کر کمرے سے چلی گئ اور خود بھی بھوکی ہی صحن میں بیٹھی اللہ کو یاد کر رونے لگ گئ
یا خدا میرے بچے کو معاف کر دیجیے گا کیونکی اس کا غصہ ہونا بھی جاۂز ہے کیونکی بچپن سے لے کر اب تک میں نے دیا ہی کیا ہے اسے اس کا باپ بھی ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے بابا کی پینشن پر کتنا مشکل سے گھر ہک صرف چلتا ہے ایک ساۂکل تک تو لینے کی اوقات نہیں ہے میری اور ساری رات وہ اسی بارے میں ہی سوچتی رہی
کچھ دنوں سے امجد سارا سارا دن اور آدھی آدھی رات تک کسی کے ساتھ پھرتا رہتا نسرین بیگم جب بھی پوچھتی تو کوئ نا کوئ بکواس کر کے انہیں چپ کروا دیتا
ایک دن نسرین بیگم کے پڑوسی نے آ کر نسرین بیگم کو بتایا کے آپ کا بیٹا محلے میں وہ جو آصف نہیں رہتا اس کے ساتھ پھرتا رہتا ہے
جس پر نسرین بیگم بہت زیادہ خوف زدہ ہو گئ کیونکی آصف ایک گنڈہ موالی تھا جو کے ہر قسم کے نشے کرتا اور ایک آدھے کو مارنے کا بھی الزام ہے اس پر
جب رات کو امجد گھر آیا تو نسرین بیگم نے غصے سے کہا تم آصف سے مل رہے ہو
اماں تجھے کیسے پتا تجھے تو دیکھائ بھی نہیں دیتا ہے
امجد نشے میں تھا
امجد تو نے نشہ کیا ہوا ہے تجھے شرم نہیں آتی بے شرم
ہاں نہیں آتی شرم اور دیکھ اماں یہ اپنی چیخ چیخ بند کر مجھے سونے دے کور اپنے یمرے میں چلا گیا
نسرین بيگم کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کی وہ کیا کرے کیسے اپنے بیٹے کو بچاۓ
ہر وقت وہ امجد سے ایک ہی بات کہتی بیٹا میں تیرے آگے ہاتھ جوڈتی ہو اس آصف کو چھوڑ دے وہ تجھے برباد کر دے گا
لیکن امجد پر جو تک بھی نا رینگتھی
ایک دن آصف اور امجد اپنے گھر لے آیا
اماں جلدی سے ہمیں کھانا لے دیں بڑی بھوک لگی ہے
امجد کون ہے تیرے ساتھ
اماں آصف آیا ہے
امجد رہنے دے پہلے خالہ کو کچھ دیکھائ نہیں دیتا ہے پتا نہیں کیا بنا کر لا دے اس لیے چھوڑ
نہیں اماں ہر چیز ٹھیک بناتی ہے اماں جلدی لے آ
تیرے اتنی ہمت جو اب ہمارےگھر بھی پہنچ آیا نکل ہمارے گھر سے اور دوبارہ اگر میرے بیٹے کے آس پاس بھی دیکھائ دیا تو تیری ٹانگیں توڑ دو گی تجھ جیسے انسان کو تو تیرے ماں باپ بھی بد دعاۂیں دیتے ہو گے اور وہ سب بھی جن جن کی اولادوں کو تو بیگھاڑتا ہے
امجد یہ کروانے کے لیے تو آیا تھا اور غصے سے آصف گھر سے نکل گیا
اماں تو کیوں ایک منحوس سیاہ بن کر میرے پیچھے پڑی رہتی ہے اب میرا ایک ہی دوست تھا اسے بھی ناراض کر دیا اور خود بھی امجد آصف کے پیچھے چلا گیا
صبح امجد واپس گھر پھر سے نشے میں ڈوب کر آیا
جس پر نسرین بیگم نے ایک تپھڑ دے مارا کتنا تو بے شرم ہے
تیرے لیے میں نے اتنا سب کچھ کیا اور تو یہ سب دیکھا رہا ہے
اماں مجھے پیسے دے
کیا کہا اب مجھے بیچ دے
آدھی رات کو تیزی سے کوئ دروازے پر دستک دے رہا تھا نسرین بیگم نے کون پوچھا تو امجد نے خوفناک آواز میں جلدی سے دروازہ کھولنے کے لیے کہا
کیا ہوا ہے بیٹا تم ٹھیک تو ہو نے ٹینشن سے نسرین بیگم نے سوال کیا
اماں مجھے چپھا لے وہ وہ
کیا ہوا مجھے ٹھیک ٹھیک بتا امجد
اماں وہ میںےآصف کے پیچھے جب گیا تھا تو آصف کافی غصے میں تھے اور وہ آپ کے بارے میں الٹا سیدھا بولے جا رہا تھا
میں نے اسے خاموش رہنے کے لیے کہا لیکن پھر سے وہ آپ کے بارے میں بکواس کرے ہی جا رہا تھا تو میں نے اس کے منہ پر ایک تپھڑ دے مارا
اور آصف نے بندوق نکال مجھ پر تان لی بامشکل میں وہاں سے بھاگ کر یہاں پر آیا ہو
وہ وہ شاید اب یہی پر ہی آ رہا ہو گا
تو رک میں اب پولیس کو کال کرتی ہو کی آصف آ گیا اور امجد پر گولی چلانے لگا
لیک نسرین بیگم آگے آ گئ اور وہ گولی نسرین کو لگ گئ
گولی کی آواز پر سارا محلہ اکٹھا ہو گیا اور آصف وہاں سے بھاگ گیا
امجد جلدی سے نسرین کو ہوسپٹل لے گیا
اور دعاۂیں کرنے لگ گیا کی اتنے میں ایک ڈاکٹر آیا جو کے نسرین بیگم کا آپریشن کرنے کے لیے آیا تھا جب اس نے نسرین کو دیکھا تو حیرانگی سے کہا یہ تو وہی ہے جنہوں نے اپنے بیٹے کو آنکھیں دی تھی
کیا ڈاکٹر صاحب کیا کہہ رہے ہے آپ
بیٹا تم کیا لگتے ہو ان کے
م م م میری اماں ہے
کیا وہ تم ہو تم ہی پیداۂشی اندھیں تھے اور یہ تکلیف تمہاری ماں بردشات نہیں کر سکی کی میرا بیٹا کیا اندھا ہی پوری زندگی گزارے گا
اس لیے اتنے پیسے تو ان کے پاس تھے نہیں کی وہ کہی سے آنھکھیں خرید سکے تو اس لیے انہوں نے اپنی آنکھیں تمہیں دے دی
ڈاکٹر کی باتیں سن امجد زمین پر گر گیا ی ی یہ کیا بات کر رہے ہے آپ ڈاکٹر صاحب پلیز میری اماں کو ٹھیک کر دے پلیز
ہم پوری کوشش کرے گے لیکن کچھ دیر بعد ڈاکٹر آپریشن ٹیٹر سے باہر آیا
سوری ہم آپ کی ماں کو بچا نہیں سکے
نہیں نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا اور جلدی سے آپریشن ٹیٹر چلا گیا
اماں اماں پلیز ایک مرتبہ اٹھ جاۓ مجھے آپ سے معافی مانگنی ہے م م میں اس بوجھ کے ساتھ زندہ نہیں رہ سکو گا پلیز
اماں اماں نہیں لیکن نسرین کب کی اس دنیا اور اس دنیا کی مشکلات سے دوررر جا چکی تھی
اور امجد جو کے پوری عمر اپنی ماں کق کوستا رہتا کو آج جب حقیقت معلوم ہوئ تب تک وہ جا چکی تھی اور امجد ان سے ایک مرتبہ معافی بھی نا مانگ سکا
تو کیسی لگی آپ کو یہ کہانی ماں کا وہ رشتہ ہوتا ہے جن کے بغیر رہنا شاید بچوں کے لیے بہت بہت بہت مشکل ہو لیکن جن کے پاس یہ نمعت ہوتی ہے وہ ان کی قدر نہیں کرتے آپ کی ماں آپ کی سب سے انمول چیز ہوتی ہے ان کی قدر کرنا آپ کا فرض ہے کیونکی ماں کے بغیر گھر بھی قبرستان جیسا ہوتا ہے آجکے لیے خدا حافظ
No comments