Tawayaf Complete Story By Farwa Khan
Tawayaf Complete Story By Farwa Khan
Read Online
اسلام و علیکم ایوری ون کیسے ہے آپ سب لوگ امید کرتی ہو کی بلکل ٹھیک ہو گے دنیا میں ہر انسان الگ الگ فطرت کے مالک ہوتے ہے کسی کی فطرت میں ہی وفا لکھی ہوتی ہے مطلب کے وہ ہر شخص کے ےاتھ وفا کرتا ہے لیکن بدلے میں انہیں اکثر بے وفائ ہی ملتی ہے اور کئ لوگوں کی فطرت میں ڈنگ مارنا ہی لکھا ہوتا ہے یعنی کے اگر پوری زندگی بھی کوئ ان کے ساتھ بہت اچھا کرے لیکن پھر بھی بدلے میں وہ ڈنگ ہی مارتا ہے یعنی ایسے وقت پر وہ آپ کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے جب آپ مشکل میں ہو
جیسے کے ایک کہانی آپ سب نے شاید پڑھی ہی ہو کی ایک بچھو کو اپنی پیٹھ پر کتا بیٹھا کر ندی پار کر رہا تھا اور بچھو کی تو فطرت میں ہی ہوتا ہے کچھ کچھ دیر بعد ڈنگ مارنا اور وہ اپنی فطرت کو کیسے بدل سکتا ہے کیونکی جو فطرت بچپن میں ہی آپ کی بن جاۓ پھر آپ اسے کبھی نہیں بدل سکتے ہاں عادتیں ضرور بدل سکتے ہے لیکر فطرت ہر گز نہیں تو خیر بچھو بھی کتے کی پیٹھ پر کچھ کچھ دیر بعد ڈنگ مارے اسے یہ بھی احساس نہیں تھا کی وہ اسے ندی پار کروا رہا ہے
اور جب تیسری مرتبہ بچھو نے ڈنگ مارا تو غصے سے کتے نے بچھو کو پیٹھ پر سے ندی میں گرا دیا اور بولا تمہارا فطرت میں ڈنگ مارنا ہی لکھا ہے تو کیسے پھر میں نے یہ سوچ لیا تھا کی شاید میرے ساتھ یہ ایسا نا کرے اب مارو اور وہ اسے وہی پر چھوڑ چلا گیا
تو ہماری آج کی کہانی بھی کچھ اسی طرح کی ہے اگر کسی انسان کو آپ فرش سے اٹھا عرش پر بھی لے جاۓ پھر بھی وہ اپنی فطرت کو بدل نہیں سکے گی تو چلیں چل کر اب ہم بہت ہی دلچسپ کہانی کو پڑھتے ہے
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔
رابیہ گانا گنگناتے ہوۓ اپنے کپڑوں کو سوکھا رہی تھی کی اس کی دوست سدرہ آ گئ رابیہ تو کبھی دکھی ہوتی بھی ہے مطلب کے جس جگہ ہم رہتے ہے وہاں پر ہر لڑکی دکھی ہی رہتی ہے
سدرہ جب معلوم ہی ہے کی یہی ہمارا مقدر ہے تو پھر کیوں ساری عمر رو رو کر گزارے اس سے اچھا ہے کی اس بات کو تسلیم کر لے کی پوری زندگی ہم نے یہی پر ہی رہنا ہے
ہاں ہاں رابیہ تجھے معلوم جو ہے کی اس جگہ کی مالکن تیری سگی ماں ہے تو تو تو ایسے ہی بولے گے خاندانی دندھا جو ہے تمہارا اپنی ماں کے بعد تو ہی سمبھالے گی
اب تجھے اس سے بھی جلن ہوتی ہے اب بکواس بند کر اور اپنے کام کر شام کو کافی امیر لوگ آنے والے ہے
تجھے کیسے پتا
اماں نے بتایا ہے اور اماں تو میرے لیے نۓ کپڑے بھی لینے گئ ہے
واہ رابیہ تو تو ایسے خوش ہو رہی ہے جیسے تیرا رشتہ دیکھنے آ رہے ہے صرف اپنا دل بہلانے کے لیے آ رہے ہے امیر لوگ اور سدرہ وہاں سے چلی گئ
رابیہ تیار ہو کر شام کو انتظار کر رہی تھی کی رابیہ کی ماں سکینہ آ گئ چل رابیہ جلدی چل تیرا رخس دیکھنے کے لیے بے تاب ہو رہے ہے سبھی
اور رابیہ امیر لوگوں کے سامنے ناچنے لگ گئ کافی اچھا ڈانس آتا تھا رابیہ کو جیسے دیکھ سب دیوانے ہو جاۓ
ایسے ہی وہاں پر بیٹھا ایک شخص جو کے بنا آنکھیں جپکاۓ رابیہ کو ہی دیکھے جاۓ
جب ڈانس ختم ہو گیا تو سبھی لوگ رابیہ کی محبت پانے کے لیے بولی لگانے شروع ہو گۓ لیکن آخر میں سب سے زیادہ رقم اس شخص نے لگائ جو کے رابیہ کی خوبصورتی کا دیوانہ ہو چکا تھا
جب وہ شخص کمرے میں داخل ہوا تو رابیہ مسکرا کر بولی
ولکم ولکم
واہ تمہیں تو انگلش بھی آتی ہے
صاحب جی ہمیں تو اور بھی بہت کچھ آتا ہے یہ تو بس شروعات ہے اور مسکراتے ہوۓ اس شخص کے قریب آ کر اس کی گردن میں دونوں ہاتھ ڈال ہونٹوں سے اس شخص کے گالوں کو چھوا جسے دیکھ وہ شخص بھی مدہوش سا ہو گیا اور اس نے بھی اپنی محبت دیکھانا شروع کر دی
کچھ دیر بعد رابیہ اس شخص کے سینے پر سر رکھ بولی آپ مجھے وہاں ایسے کیوں دیکھ رہے تھے
تم مجھے بہت پیاری لگی مطلب سب سے الگ جسے دیکھ بس دیکھتا ہی رہے ویسے نام کیا ہے تمہارا
رابیہ اور آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہے اور آپ کا
میرا نام چوہدری حیدر
آج سے میرے لیے آپ چوہدری صاحب
روز کا معمول بن چکا تھا حیدر کے رابیہ کے پاس آنا اور جب سے حیدر ملے تھے رابیہ بھی مغرور مغرور رہنے لگ گئ تھی
ایک مرتیہ حیدر سکینہ کے پاس گیا اور اسے رابیہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے جانے کو کہا کیونکی وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا
سکینہ بیگم تو بہت خوش ہوئ لیکن یہ خوشی رابیہ کے چہرے سے دیکھائ نہیں دے رہی تھی
رابیہ کیا ہوا تو خوش نہیں ہے تجھے عزت بنانے والے ہے
پر اماں میں نہیں جانا چاہتی مجھے یہ جگہ پسند ہے اور چوہدری صاحب آۓ روزانہ آۓ مگر میں ان کے ساتھ
چپ کر پاگل ہو گئ ہے تو توحیدر صاحب کے ساتھ جا رہی ہے مطلب جا رہی ہے
اور نکاح کر حیدر رابیہ کو اپنےساتھ لے گیا
شادی کی پہلی رات رابیہ نے حیدر سے سوال کیا کیوں آپ مجھ جیسی سے نکاح کر مجھے اپنے گھر کی عزت بنا لاۓ ہے
رابیہ میں نے سوچا تھا کی زندگی میں ایک نیک کا کرو گا تو سوچا کی کیوں نا تمہیں اس جہنم سے نکل دو اس لیے
اب سے تم اتنے امیر خاندان کی بہو ہو ہماری عادتوں کو بھی اپنانا ہو گا
لیکن رابیہ کی جو فطرت بن چکی تھی اسے کیسے بدل سکتی تھی
ایک مرتبہ کچھ دوست حیدر کی شادی کی مبارک باد دینے آۓ اور وہاں پر رابیہ ڈانس کرنے لگ گئ جیسے پہلے کیا کرتی تھی جسے دیکھ غصے سے حیدر اسے وہاں سے لے گیا اور بولا
میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا اپنی ان عادتوں کو بدل لو اب تم میری بیوی ہو کوئ لوگوں کا دل بہلانے والی نہیں سمجھی
اس بات کو تو حیدر نے بھولا دیا تھا
کبھی رابیہ چمک دھمک والے کپڑے پہنے جنہیں دیکھ کوئ بھی پہچان جاۓ کی وہ وہاں کی ہے تو کبھی آنکھ مار باتیں کیا کرے
اور ایک مرتبہ رابیہ نے سبھی حدوں کو پار کر دیا جس کی وجہ سے حیدر نے اسے فوراً طلاق دے دی
حیدر کچھ دنوں سے کافی بیزی تھا کام کے سلسلے میں اور رابیہ کو ٹاۂم نہیں دے پا رہا تھا
حیدر کا ایک خاص نوکر تھا جو کے ہر وقت ان کے گھر میں رہتا تھا
ایک مرتبہ حیدر دوسرے شہر گیا ہوا تھا اور رابیہ اکیلی گھر میں تھی
نوکر رابیہ کے کمرے میں اسے کھانا لگ گیا ہے آ کر کھا لے کہنے آیا تو رابیہ نے اسے وہی کمرے میں کھانا لانے کو کہا
جب وہ کھانا لے کر آیا تو رابیہ اس کا ہاتھ پکڑ پاس آ کر بیٹھنے کے لیے کہنے لگ گئ اور وہ بدی ک مرد تھا جب عورت کسی کو خود اپنے قریب آنے کے لیے کہہ رہی ہو تو پھر مرد کیا کرے اس نے بھی سبھی حدوں کو پار کر دیا
جب صبح حیدر آیا تو رابیہ کو اپنے نوکر کے ساتھ دیکھ دھکے دے کر گھر سے نکالنے لگ گیا
چوہدری صاحب میری بات تو سنے
کیا بات سنو تیری تو میری بات سن سہی کہتے ہے کی انسان اپنی فطرت کبھی بھی زندگی میں بدل نہیں سکتا جیسے تیری تجھے میں نے گند سے نکال یہاں اپنے گھر کی عزت بنایہ لیکن پھر بھی تو تیری تو فطرت ہی گند میں رہنا تھا اس لیے تو یہاں بھی نا خود کو بدل سکی
تو جا پوری زندگی اسی گندگی میں گزار تو کبھی ایک شخص کے ساتھ زندگی گزار ہی نہیں سکتی ہے دوبارہ مجھے اپنی شکل مت دیکھنا
اور رابیہ کو پھربعد میں پچتھاوہ ہوا کی اس نے کیا گناہ کیا ہے لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی
تو کیسی آپ کو یہ کہانی امید کرتی ہو کی پسند آئ ہو گی اگر زندگی میں آپ کو آپ کی سوچ سے بڑ کر مل جاۓ تو اس کی قدر کرے نا کےاپنی غلطیوں کی وجہ سے گواہ دے کیونکی زندگی صرف ایک مرتبہ ہی آپ کو موقعہ دیتی ہے تو آج کے لیے بس اتنا ہی آپ سب سے پھر سے ملاقات ہو گی صبح اب کے لیے خدا حافظ
No comments