Header Ads

  • Breaking News

    Mohabbat Ka Safar Complete Story By Farwa Khan

    Mohabbat Ka Safar Complete Story By Farwa Khan

    Mohabbat Ka Safar Complete Story By Farwa Khan
    Below In Urdu

    اسلام و علیکم ایوری ون کیسے ہے آپ سب لوگ امید کرتی ہو کی بلکل فٹ فاٹ ہو گے آپ سب لوگ زندگی میں آپ سب کے کوئ نا کوئ رشتہ بہت بہت قیمتی ہوتا ہی ہو گا جیسے کسی کو اپنے ماں سے بہت محبت ہوتی ہے ان کی زندگي میں ہر رشتے سے زیادہ اہمیت رکھتے ہے کئ لوگوں کو اپنی بیوی سے بہت محبت ہوتی ہے اور ایسے ہی آپ کے بچے جیسے کے آپ کے پاس 4 بچے ہے لیکن سب سے زیادہ آپ اپنے کسی ایک بچے سے محبت کرتے ہے حالانکے سبھی اولاد آپ ہی کی ہوتی ہے لیکن محبت آپ کو ایک بچے سے زیادہ ہوتی ہے تو یہ ہمیشہ سے ہی چلتا آ رہا ہے 
    کئ مرتبہ آپ جن سے محبت کرتے ہے خدا بھی آپ کو ان سے ملوا ہی دیتا ہے اور پوری زندگی سب سے زیادہ آپ اپنی بیوی یعنی کی اپنی محبت سے محبت کرتے ہے اور لوگ آپ کی محبت کی مثالیں دینے لگ جاتے ہے اور پوری زندگی وہ ایک دوسرے کی محبت میں گزار دیتے ہے چاہیں پھر برا وقت ہو یا اچھا وہ ایک دوسرے کا کبھی بھی ساتھ نہیں چھوڑتے ہماری آج کی کہانی بھیکچھ اس طرح کی ہی ہے تو چلیں چل کر اس دلچسپ کہانی کو پڑھتے ہے 
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔        ۔ ۔۔ ۔۔  ۔  ۔ ۔     ۔ ۔      ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔   ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 
    راشد صاحب صبح صبح اٹھ کر ناشتہ بنانے لگ گۓ آج سب وہ اپنی بیوی کی پسند کا بنا نہے تھے کیونکی کچھ دنوں سے ان کی بیگم بتول کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی 

    ناشتہ بنانے کے بعد وہ بتول بیگم کے کمرے میں گۓ اور انہیں اٹھانے لگ گۓ بتول بیگم اٹھ کر مسکرانے لگ گئ آپ کیوں ناشتہ بنا کر لے آۓ بس میں اٹھنے ہی والی تھی 

    تو کیا ہوا گیا بیگم جی ہمارا بھی تو کوئ فرض بنتا ہے کے نہیں 

    راشد صاحب اور بتول بیگم اکیلے رہتے تھے کیونکی ان کے دو بیٹے اور ایک بیٹی شادی کرنے کے بعد اپنے والدین سے ایسے دورر ہوۓ کی دوبارہ انہیں ولنے بھی نا آتے لیکن دونوں میاں بیوی ایک دوسرے کے سہارے زندگی گزار رہے تھے 

    بتول چلو کھا کر بتاۂو تو کی کیسا بنا ہے بہت محنت سے بنایا ہے 

    بتول بیگم کانٹے کی طرف دیکھے جاۓ 

    کیا ہوا بیگم کچھ تو بولو 

    وہ اسے کیسے استمعال کرتے ہے اور الٹا پکڑ کر پوچھنے لگ گئ 

    راشد صاحب کو اس بات کا بہت دکھ ہوا لیکن پھر مسکرا کر بتول بیگم کا ہاتھ پکڑ کانٹے کو سیدھے طریقے سے پکڑا کر اپنے ہاتھوں سے کھلانے لگ گۓ ایسے کھاتے ہے بتاۂو کیسے بنے ہے یہ شامی کباب

    بہت لزیذ ہے شکریہ 

    یہ شکریہ مت کہے آپ اور دوائ کھلا کر خود راشد صاحب ڈاکٹر کے پاس چلے گۓ 

    ڈاکٹر صاحب آج تو بتول بیگم یہ بھی بھول گئ کی کانٹے کو کیسے پکڑتے ہے 

    راشد صاحب ہم نے آپ سے پہلے بھی کہا تھا کی انہیں ہوسپٹل میں ایڈمیٹ کروا دے کیونکی اب ان کی حالت صرف بیگڑنی ہی ہے

    نہیں نہیں میں ایسا نہیں کر سکتا بس آپ ویسے علاج کرتے رہے 

    کیونکی راشد صاحب اپنی بیگم کے بغیر اپنی زندگی کے اس حصے کو گزار نہیں
    سکتے 

    اور واپس گھر آ گۓ بتول بیگم کچن میں کھڑی تھی 

    بتول بیگم کیا ہوا کیا چاہیں آپ کو 

    وہ پتا نہیں مجھےکچھ چاہیں تھا لیکن اب یاد نہیں 

    مجھے معلوم ہے کی تمہیں ایک عدد چاۓ چاہیں تھی اب تم آرام سے صوفے پر بیٹھوں میں ابھی چاۓ بنا کر لایا

    چاۓ پینے کے بعد دونوں باتیں کرتے ہے باتوں باتوں میں راشد صاحب نے اپنے بیٹے احمد کا ذکر کیا جس پر بتول بیگم نے حیرانگی سے راشد صاحب سے پوچھا 

    احمد کون 

    بتول بیگم ہمارا بڑا بیٹا احمد 

    ہمارے کوئ اور بھی بچے ہے 

    بتول بیگم اللہ نے ہمیں ٣ بچوں سے نوازا ہے 
    اچھا شاید دماغ سے نکل گیا ہے میرے اور ہسنے لگ گئ 

    راشد صاحب بہت زیادہ ٹینشن میں آ گۓ کی سچ میں بتول بیگم کی تو بہت بری حالت ہو رہی ہے اب کیا کرو میں خیر صبح راشد صاحب سوۓ ہوۓ تھے کی اچانک سے بتول بیگم نے ایک زور دار چپل دے ماری اٹھو کون ہو تم اور یہاں میرے ساتھ کیوں سوۓ ہوۓ ہو 

    بتول بیگم کیا ہو گیا ہے راشد صاحب جلدی سے اٹھ بتول بیگم سے پوچھنے لگ گۓ 
    یہ بتول کون ہے میں تو میں تو اور خود ہی بتول بیگم سوچنے لگ گئ کی آخر ان کا نام کیا ہے 

    بتول بیگم آپ ہے اور میں آپ کا شوہر راشد اور دیکھے سامنے ہم دونوں کی تصویر بھی لگی ہوئ ہے 

    بتول بیگم تصویر دیکھ رونے لگ گئ مجھے معاف کر دے میں سب کچھ کیوں بھول رہی ہو مجھے یہ کیا ہو رہا ہے آپ مجھے پاگل خانے بیجھ دے کیونکی آپ بھی میری وجہ سے پریشان ہے 

    کیسی باتیں کر رہی ہو بتول بیگم اگر تمہارا جگہ میں ہوتا تو کیا تم مجھے بھی ایسے پاگل خانے بیجھ دیتے جب جیۓ ساتھ ہے تو مرے گے بھی ساتھ ہی اس لیے اب رونا بند کرو 

    ایک مرتبہ راشد صاحب گھر آۓ کی اچانک سے بتول بیگم انہیں دیکھ گلاس دے مارا جس کی وجہ سے ان کے ہاتھ پر چوٹ لگ گئ 

    بتول بیگم یہ آپ کیا کر رہی ہے میں ہو راشد آپ کا شوہر 


    اور پھر سے بتول بیگم رونے لگ گئ 

    راشد صاحب ہوسپٹل میں جا کر ٹانکے لگوانے لگ گۓ کیونکی کافی گہری چوٹ لگی ہوئ تھی 

    نرس سے راشد صاحب نے جلدی پٹی کرنے کے لیے کہا 

    کیوں کیا ہوا 

    وہ مجھے اپنی بیوی کو کھانا کھلانا ہے 

    تو وہ خود کھا لے گی 

    نہیں وہ خود نہیں کھا سکتی 

    کیوں کیا ہوا ہے انہیں 

    انہیں کچھ یاد نہیں رہتا تو کھانا کیسے بنا کر کھاۓ گی 

    تو پھر آپ انہیں ہوسپٹل چھوڑ دے 

    ایسے کیسے چھوڑ دی اس حالت میں اگر وہ مجھے بھول گئ ہے لیکن میں تو اسے نہیں بھولا ہو نا تو پھر اسے اکیلا کیسے چھوڑ دو 

    نرس راشد صاحب کی بات سن رونے لگ گئ 

    اس دوررر میں بھی اتنی محبت کیسے کوئ کر سکتا 

    راشد صاحب واپس گھر چلے گۂیں اور سارے گھر میں اپنی اور بتول بیگم کی تصویریں لگا دی جس سے بتول بیگم کو یاد آ جاتا تھا کی راشد صاحب ان کے شوہر ہے 

    زندگی یوں ہی گزرتی رہی اور ایک دن بتول بیگم کی سانسیں تھم گئ جس کا صدمہ راشد صاحب بھی برداشت نا کر سکے اور خود بھی وہی پر اپنا دم توڑ گۓ 

    تو کیسیلگی آپ کو یہ محبت کی داستان محبت کی کوئ عمر نہیں ہوتی کی بھڑاپے میں محبت ختم ہو جاۓ گی محبت تو وہ چیز ہوتی ہے جب ایک مرتبہ زندگی میں ہو جاۓ تو پوری عمر یہ محبت زندہ رہتی ہے کیونکی سـچی محبت ہوتی ہی ایسی ہے ہر برے اچھے حالات میں ایک دوسرے کا ساتھ دینا یہی تو محبت ہے

    اولاد دوست رشتے دار سب بدل سکتے ہے لیکن محبت کرنے کا شخص کبھی بھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑ سکتا 

    جیسے کے راشد صاحب نے کیا بتول بیگم کا ساتھ مرتے دم تک دیا اگر آپ بھی کسی سےےمحبت کرتے ہے تو سچے دل سے کرے کیونکی محبت کرنا آسان ہے لیکن نبھانا بہت مشکل تو آج کے لیے بس اتنا ہے بہت بہت شکریہ آپ سبھی کا جو آپ ہماری ویب ساۂٹ پر اپنا قیمتی وقت نکال کر آۓ آپ سب سے پھر سے ملاقات ہو گی صبح آج کے لیے بس اتنا ہی خدا حافظ 








     

    No comments

    Post Top Ad

    Post Bottom Ad

    ad728