Zehaal E Miskeen By Malisha Rana Complete Novel
Below And Read Episodes
" چھوڑو مجھے ، یہ کونسی جگہ ہے ، خدا کا واسطہ ہے جانے دو اسکی خاطر تو نا آئی تھی میں یہاں۔۔۔۔"
دھول مٹی سے بھری اس اندھیری جگہ فرش پر گری ایک درمیانی عمر کی خاتون حلق کے بل چیختی مقابل کی منت سماجت کرنے میں مصروف تھی خوف سے لرزتا وجود سیاہ آنکھیں کسی کے بھی دل میں رحم پیدا کر جاتی مگر اسکا سامنا تو کسی جلاد سے ہوا تھا۔۔۔۔۔
اسکا گڑگڑانا رونا بے فضول تب ثابت ہوا جب اسکے سر کو ڈھانپے دوپٹہ کو بے دردی سے کھینچتے دور اچھال دیا گیا تھا وہ سمجھ سکتی تھی اس کے بعد کونسی قیامت ٹوٹنے والی ہے اس پر ، اسکے قدم اپنی سمت بڑھتے دیکھ ہاتھ جوڑتی وہ پیچھے کو کھسی پر مقابل نے بنا کوئی موقع دیے اس کے بالوں کو مٹھی میں جکڑ کھڑا کرتے کہیں لیجانا شروع کر دیا احتجاجاً وہ کچھ نا کر پائی اتنی ہمت ہی کب تھی ، اب نا جانے کیا ہونے والا تھا اسکے ساتھ کس جرم کی سزا یوں منتخب کی گئی تھی اسکے لیے۔۔۔۔
💓💓💓💓💓💓
" السلام علیکم اماں بابا جان ، سلام ادا ، کیسے ہیں آپ سب۔۔۔۔"
کھانے کی ٹیبل جس پر رنگ برنگے لوازمات سجے ہوئے تھی اسکے قریب آتی 19 سالہ خوبصورت دوشیزہ اپنی کرسی کھینچ جگہ سنبھالتی باقی کے نفوس کو سلام پیش کر گئی ویسے تو بہت بڑا ٹیبل تھا یہ مگر حویلی کے آدھے سے زیادہ افراد غائب تھے اپنی اپنی مصروفیات میں مگن وہ کم ہی اکھٹے ناشتہ یا ڈنر کیا کرتے۔۔۔۔
" وعلیکم السلام بابا کی جان آج اتنی جلدی کیسے جاگ گئی۔۔۔۔"
اسے خوش و باش دیکھ وہ محبت سے اسکے سر پر ہاتھ رکھتے سوال کر گئے خاصی محبت تھی انھیں اپنی لاڈلی سے خیر لاڈلی تو وہ پوری حویلی کی تھی آخر چار بھائیوں کی اکلوتی شہزادی جو تھی 3 نسلوں کے بعد انکے ہاں بیٹی کی پیدائش ہوئی یہی وجہ تھی جو مقصود سومرو کے دل کے بہت نزدیک تھی وہ ، اس کی ایک وجہ رعنین کا شکل و صورت میں اپنی دادی پر چلے جانا بھی تھا مقصود سومرو کی تو مانو جان بستی ہو اپنی والدہ میں۔۔۔۔
آخر اکیلے شوہر کی وفات کے بعد انھوں نے پورے گاؤں پر حکومت جو کی ابھی تک ہر جانب انکے حکم کے بغیر گاؤں میں پتہ نا ہلتا ایسی ہی شخصیت بنا رکھی تھی نسیم حمید سومرو نے ، سخت مزاج کی اصول پرست روایات کی پابند خاتون تھیں وہ ، کم عمری میں شوہر کی وفات کے بعد دو دو بیٹوں کی پرورش کرتے وہ اپنا ایک خوف سب پر طاری کر چکی تھیں کسی کی جرآت نا ہوتی انکے فیصلہ کی خلاف ورزی کرے۔۔۔۔
حالانکہ دونوں بیٹے جوان ہونے کے بعد شادی شدہ بھی ہو گئے اسکے باوجود وہ زمینوں اور پیسوں کے حساب کتاب سے لے کر روایات تک اپنی مرضی سے چلانے کی عادی تھیں دونوں بیٹے بھی بہت فرمابردار تھے کبھی کوئی سوال نا کیا مرتے دم تک انکے بڑے بیٹے شہزاد سومرو کے لبوں پر کوئی شکوہ نا تھا اپنی بیگم کی وفات کے بعد بہت بیمار رہنے لگے تھے وہ یہی بیماری طویل ہوتی انکی موت کی وجہ بنی ، یہ صدمہ بھی نسیم بیگم کو کمزور نا کر سکا بلکہ پہلے سے زیادہ مضبوط چٹان بن چکی تھیں وہ ورنہ مقصود سومرو اس قابل نا تھے جو اکیلے کچھ کر پاتے اپنی والدہ کی وجہ سے ہی کامیاب تھے وہ۔۔۔۔۔
" جلدی کب بابا جان ٹائم تو دیکھیں کیا ہو گیا ہے ویسے بھی بھوک سے پیٹ دکھنے لگا تھا میرا اب یہ بھوک اماں کے لذیذ کھانے سے ہی دور ہو سکتی ہے تو چلی آئی میں مگر یہاں تو کوئی ہے ہی نہیں ۔۔۔۔"
اسکی نظریں متلاشی تھیں کسی کی لیکن سامنے بیٹھے صارب کو دیکھ اسکی ہنسی چھوٹ گئی جس نے بنا کسی کو دیکھے بس دھیان کھانے میں وقف کر رکھا تھا یہاں تک کے رعنین کو جواب بھی دینے کی توفیق نا ہوئی اسے کسی ایک کام میں مصروف ہوتا وہ تب مکمل توجہ اسی پر مرکوز ہوتی۔۔۔۔
" ویسے مست موجی تو انسان کو ادا کی طرح ہونا چاہیے دیکھ لیں کیسے مزے سے کھانے میں مگن ہیں میری تو بھوک ہی بڑھ گئی اففف مجھ سے اور ویٹ نہیں ہوتا جلدی سے کھانا دے دیں نا۔۔۔۔"
کھانا سرو کر رہی اپنی ماں سے کہا اس نے جو صارب کی ہی پلیٹ بھرے جا رہی تھیں ہنستا ہوا وہ بھی انھیں دیکھ کھاتا رہا روکنے کی کوشش نا کی اس نے جیسے اتنا سب کھا ہی لے گا وہ ، دل کا صاف اور بے حد معصوم تھا وہ بچپن میں ہوا حادثہ 28 سالہ صارب کو 11 سالہ عمر میں پہنچا گیا اسکی حرکتیں باتیں سب بچوں جیسی تھیں یہی وجہ تھی جو سب اسکا خیال کیا کرتے ، اب بھی رعنین کی بات کو نظر انداز کر کاشفہ بیگم اسے سرو کیے جا رہی تھیں ہمیشہ سے ہی اپنی اولاد سے بھی بڑھ کر انھیں یہ تین بھائی عزیز تھے مانو اپنی جیٹھانی کی وفات کے بعد وہی انکی ماں کے رتبے پر فائز ہو گئی ہوں۔۔۔۔
" صبر کرو لڑکی تمہاری طرف ہی آ رہی ہوں بھائی کو تو کھانے دو کیوں شور مچا رکھا ہے۔۔۔۔"
چائے کے خالی ہو چکے کپ کو پھر سے بھرتی وہ رعنین سے مخاطب اسکی جانب پلٹی لب بھینچے وہ اپنی پلٹ انکی طرف کر گئی کبھی شکوہ نا ہوتا اسے کہ کیوں اسکی ماں ان دو بہن بھائی سے زیادہ ان تینوں سے پیار کرتی ہیں بلکہ اسکے لیے وہ تینوں ہی بہت اہم تھے۔۔۔۔
" بس کہ اور چاہیے۔۔۔۔"
پراٹھا اسکی پلٹ میں رکھتی وہ پوچھنے لگیں پر رعنین کی نظر تو سامنے سے آ رہے خوبرو شخص کو دیکھ ٹھہر سی گئی تھی بے اختیار وہ اسے پکار اٹھی وجہ اس شخص کے چہرے پر تشویش ناک تاثرات کا موجود ہونا تھا۔۔۔۔
" کیا ہوا ادا پریشان دیکھائی دے رہے ہیں کہاں جا رہے ہیں آپ۔۔۔۔"
سب سے بڑے بیٹے راہب کو بنا کچھ کھائے پیئے گھر سے افراتفری میں کہیں جاتے موبائل کان سے لگائے دیکھ اس نے پکارا ، بنا اسے جواب دیے وہ حویلی کے داخلی دروازے سے باہر نکل گیا تھا مانو سنا ہی نا ہو ، آج کل بہت عجیب تھا اسکا برتاؤ کھویا کھویا سا رہتا خود کو کمرے تک محدود کر چکا تھا وہ حال ہی میں بیمار بھی تھا تو سبھی کو اسکی خاموشی کی وجہ بیماری ہی لگی پر اصل میں اسکا روگ کیا تھا یہ کوئی نا جانتا۔۔۔۔۔
" راہب بیٹے کدھر جا رہے ہو۔۔۔۔؟؟؟
کاشفہ بیگم کی توجہ جیسے ہی اس پر گئ وہیں سب چھوڑ اسکی جانب لپکیں پر تب تک وہ اپنے خاص آدمی اعشفار کے ہمراہ گھر سے باہر گاڑی میں بیٹھ چلا گیا شاید اسے ہی کال کی تھی راہب نے تبھی گاڑی سٹارٹ تھی ، پریشان تو وہ بھی ہو گئیں بھوکا ہی بیماری سے اٹھا وہ کہیں چل دیا تھا پر اسکے دائیں ہاتھ یعنی بچپن کے ساتھی کو اسکے ساتھ دیکھ کسی حد تک سکون فراہم ہوا انھیں۔۔۔۔
" کوئی کام ہو گا ادا کو اماں آپ کیوں پریشان ہو گئی ہیں۔۔۔۔"
وہیں کھڑی وہ منہ ہی منہ میں کچھ پڑھ پڑھ کر اسکی جاتی گاڑی پر پھونک رہی تھیں جب اچانک انھیں کاندھے پر کسی کے ہاتھ کا دباؤ محسوس ہوا پلٹ کر جب انھوں نے دیکھا تو انکا چھوٹا بیٹا عریش تھا روٹین کے مطابق ہی صبح سویرے جاگ کر فریش ہوئے باہر ہال میں آیا وہ تب رعنین اور مقصود صاحب کو دروازے میں کھڑی کاشفہ بیگم کو کھڑے دیکھ وہ حیران ہوتا ان سے مخاطب ہوا تب رعنین نے راہب کے متعلق اسے آگاہ کیا تھا۔۔۔۔۔
" ہمممم اللّٰہ میرے بچے کو اپنے حفظ وامان میں رکھیں ، تم جاگ گئے چلو کھانا کھا لو۔۔۔۔ "
انکے ہمراہ وہ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھا ابھی تک رعنین ویسے ہی بیٹھی تھی کھانا شروع نا کیا تھا اس نے سبھی حویلی والے ایک دوسرے پر جان نچھاور کرتے تھے۔۔۔۔
" اگر تم اٹھ گئے تھے تو عارب کو بھی بلا لاتے اتنے دنوں بعد میرا بچہ واپس آیا ہے شہر سے رات کو بھی کچھ نا کھایا۔۔۔۔"
عریش کی پلیٹ میں کھانا ڈالتی وہ صارب سے چھوٹے عارب کا ذکر کر گئیں رعنین کی پلکیں اس ایک نام پر لجا سے جھک گئیں کھاتے کھاتے ہاتھ بھی تھم سے گئے تھے دل کی رفتار بھی بڑھنے لگی با مشکل سے اپنے تاثرات پر قابو ڈال پا رہی تھی وہ اسے ڈر تھا کہیں اس راز کا علم کسی کو نا ہو جائے اسکی بچپن کی محبت یوں سرے عام نا آ جائے جبکہ ابھی تک خود وہ عارب کے جذبات سے لا علم تھی کہ وہ اسکے بارے میں کیا سوچتا ہے۔۔۔
" فلحال رہنے دو کاشفہ سونے دو اسے ورنہ ٹھیک سے آرام بھی نا کرتا ہو گا آخر اپنوں میں ہی تو سکون ملتا ہے پر اس لڑکے کی طبیعت میں ایک جگہ رہنا کہاں ، اڑتا پنچھی ہے یہ تو۔۔۔۔"
چائے کا گھونٹ بھرتے وہ مسکراتے ہوئے عارب کا ذکر کرتے اپنی بیگم کو منع کر گئے جنہوں نے اثبات میں سر ہلایا کہ اتنے میں ملازمہ ٹیبل کے قریب آئی اور مقصود صاحب کو مخاطب کیا۔۔۔
" سرکار ، بی بی حکم آپکو یاد کر رہی ہیں کمرے میں بلایا ہے۔۔۔۔"
یہ وہی ملازمہ تھی جو نسیم حمید سومرو کے قریب ہر وقت رہا کرتی کچھ وقت پہلے وہ انکے کمرے میں کھانا دینے گئی تھی اور اب خالی برتنوں کو اٹھائے انکا پیغام لیے ادھر چلی آئی۔۔۔۔
" میں آ رہا ہوں ابھی۔۔۔۔"
آدھا کپ چائے چھوڑ وہ فوراً اٹھ کھڑے ہوئے انکی فرمابراری میں شامل تھی یہ عادت ، انکو جاتے دیکھ باقی نفوس نے اپنا کھانا جاری رکھا بچپن سے دیکھ رہے تھے وہ اپنی دادی جان کو کوئی نئی بات تھوڑی تھی۔۔۔۔۔
Zehaal E Miskeen By Malisha Rana Complete Novel
Online Reading
No comments