Header Ads

  • Breaking News

    Beqrar Ramze By Farwa Khan Complete Novel

    Beqrar Ramze By Farwa Khan Complete Novel

     Beqrar Ramze By Farwa Khan Complete Novel

    Below And Get Complete Novel Free

    Inspired By Malisha Rana Novel Mera Marz Tu And Ik Siwa Teray 

    قربان خانزادہ غم و غصے کی کیفیت میں اپنے کمرے کا دروازہ دھاڑ سے کھولتے اندر داخل ہوا تو حور بیڈ پر بیٹھی جی جان سے لرز اٹھی تھی ریڈ شلوار قمیض پر ریڈ ہی نیٹ کا دوپٹہ تھا جو سر پر اوڑھا ہوا تھا بغیر کسی میک اپ کے اور جیولری کے وہ بے تحاشا حسین لگ رہی تھی چہرے پر شرم و حیا کی سرخی سے زیادہ ڈر اور خوف کی دہشت چھائی تھی۔۔۔۔۔


    اس نے ابھی تھوڑی دیر پہلے اس انسان کا ایسا روپ دیکھا تھا جس نے اس کی رگوں میں دوڑتے لہو کو منمجند کر دیا تھا اسے آج تک کسی انسان سے اتنا خوف محسوس نہیں ہوا تھا جتنا اپنے سامنے کھڑے انسان سے محسوس ہو رہا تھا وہ قربان کی لہو اتری آنکھوں کو دیکھتے ہوئے پیچھے کو ہوتی دیوار کے ساتھ جا لگی تھی وہ ایک ہی جست میں اس تک پہنچا تھا۔۔۔۔۔


    وہ نیٹ کے دوپٹے کو خود پر اچھی طرح اوڑھے ہوئے تھی جس طرح کل رات وہ خود کو چھپاتے ہوے اپنے باریک سے دوپٹے سے خود کو کور کر رہی تھی فرق صرف اتنا تھا کل رات اس انسان سے اس کا کوئی رشتہ نہیں تھا آج وہ اس کے جسم و جاں کا مالک تھا مگر حیرت تھی کل رات اسے انسان سے خوف محسوس نہیں ہوا تھا مگر آج اسے انسان سے خوف محسوس ہو رہا تھا جبکہ وہ اس کی عزت بن چکی تھی قربان خان نے آگے بڑھتے ہی اس کا دوپٹہ اتار کر دور اچھال دیا تھا کل بھی تو وہ ایسے ہی ایکٹ کرتے خود کو بہت پاک بہت شرم و حیا والا ظاہر کر رہی تھی۔۔۔۔۔


    کیوں کیا تم نے ایسا؟ کیوں مجھ سے میرا سب کچھ چھین لیا؟؟میری زندگی تم نے مجھ سے چھین لی کیوں؟مجھے برباد کر دیا کیوں؟؟؟


    قربان خان اس کے دونوں اطراف میں ہاتھ رکھتے دھاڑا تھا جی کیا تھا اپنے سامنے کھڑی بے تحاشا پریوں کا حسن رکھنے والی لڑکی کا منہ کا نقشہ بگاڑ دے جس نے پل بھر میں اس کا اس سے سب کچھ چھین لیا۔۔۔۔۔


    مم مجھے نہیں پتہ تھا مم میں نہیں جانتی تھی یہ سب ایسے ہو جاۓ گا۔۔۔۔۔


    حور خوف کے عالم میں دیوار میں سمٹتی ہوئی بمشکل بولی قربان خانزادہ کی خون اتری آنکھوں میں دیکھتے اس کے اعصاب منجمند ہو رہے تھے۔۔۔۔


    مم مجھے معاف کر دو پپ پلیز۔۔۔


     حور نے قربان خانزادہ کی آنکھوں میں دیکھتے ٹوٹے لفظوں اور کانپتے لہجے سے التجا کی۔۔۔۔۔


    کیسے معاف کروں میری بہن کی بربادی پر تمھیں معاف کردوں یا پھر اپنی بربادی پر تمھیں معاف کر دوں میری محبت چھین لی مجھ سے میری پریذے چھین لی پوری برادری کے سامنے میرے کردار کی تم نے دھجیاں بکھیر دی کل تک جن لوگوں کی نظروں میں میری عزت ہوتی تھی آج ان لوگوں کی نظروں میں میرے لیے حقارت ہے میں اپنے بھائیوں اپنی بہنوں کے سامنے سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا اور تم مجھے کہہ رہی ہو تمھیں معاف کر دو ہاں بولو جواب دو۔۔۔۔۔۔


    وہ پوری قوت سے چیخا تھا حور خوف کے عالم میں مزید دیوار میں سمٹی تھی۔۔۔۔


    تم نے جو کیا ہے تمھیں اس کا حساب دینا پڑے گا۔۔۔۔۔


    قربان خانزادہ نے اس کا منہ اپنی گرفت میں لیے دبوچا تھاںحور میں اتنی بھی طاقت نہ تھی کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اس کی آہنی گرفت جو اس کے نازک گالوں پر بڑھتی جا رہی تھی چھڑواتی قربان خانزادہ نے اپنے ہاتھ سے اس کا جبڑہ جتنا دبوچ سکتا تھا وہ دبوچ رہا تھا حور نے ہمت کر کے قربان کے ہاتھوں پر اپنا کانپتا ہاتھ رکھا اسے اپنے گالوں میں اس کی نازک انگلیاں گڑھتی محسوس ہو رہی تھی اب یہ تکلیف اس کی براشت سے باہر تھی آنسو اس کی آنکھوں سے بارش کی طرح برس رہے تھے۔۔۔۔۔


    قربان نے استھزائیہ مسکراتے ہوئے اسے چھوڑا تو اس کے گالوں پر اس کی انگلیوں کے نشان واضح طور پر دکھائی دے رہے تھے درد کی شدت سے اس کی سسکاریاں اب کمرے میں گونجنے لگی تھیں۔۔۔۔۔


    یہ درد تو کچھ نہیں ہے ابھی تو تمھیں بہت درد سہنے ہیں چچ چچ کیسے سہو گی تم مجھے تو تم پر ترس آ رہا ہے تم تو بہت نازک ہو۔۔۔


    قربان نے اس کے قریب ہوتے اس کے گال پر اپنی انگلی نرمی سے ٹریس کی تھی حور کا رنگ خوف کے عالم میں مزید سفید پڑا تھا۔۔۔۔


    خدا کے لیے مم مجھے معاف کر دو مم مجھے جانے دو ۔۔۔۔۔


    حور اس کے آگے دونوں ہاتھ جوڑتے گڑگڑائی تھی۔۔۔۔


    جانے دوں تمھیں ابھی تھوڑی دیر پہلے تمھارا اور میرا نکاح ہوا ہے اور یہ نکاح تم نے اپنی مرضی سے کیا ہے جانتی ہو ایک مرد نکاح کیوں کرتا ہے؟؟ اسے عورت سے کیا چاہیے ہوتا ہے؟؟


    قربان پھر سے اس کا جبڑہ اپنی آہنی گرفت میں دبوچ گیا اسے اس پر بلکل ترس نہیں آ رہا تھا اس کے نزدیک وہ ترس کھانے کے قابل ہی نہیں تھی وہ شائد اپنے کسی گناہ یا پھر اپنی عزت چھن جانے کا کفارہ اس کے سر ڈالنا چاہتی تھی اسی لیے تو اس نے یہ کھیل رچایا۔۔۔۔


    وہ اس کی آہنی گرفت میں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی بہت سے آنسو آنکھوں سے ٹوٹ کر رخ پر پھر برسنے لگے تھے یہ آنسو تو آج رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے شائد اب یہ آنسو اس کے مقدر تھے۔۔۔۔


    یہ سوال میں تم سے کیوں کر رہا ہوں؟؟ تم جیسی لڑکی کو تو سب کچھ پتہ ہو گا آخر تم نے مجھ سے نکاح اسی مقصد کے لیے تو کیا ہے یا یہ مقصد کوئی مجھ سے پہلے ہی پورا کر چکا ہے۔۔۔۔


    قربان اس کا جبڑہ چھوڑتے سرد لہجے میں ذومعنی انداز میں بولا۔۔۔۔


    کک کیا کہہ رہے ہیں؟؟


    وہ ناسمجھی کی کیفیت میں بولی۔۔۔۔


    ارے اتنی معصوم کیوں بن رہی ہو؟؟ جو میں کہنا چا رہا ہوں تم نہیں سمجھی۔۔۔۔۔


    وہ آچانک ہی اسے اپنی بانہوں میں بھرتے اپنے سینے میں بھینچ گیا تھا حور خوف کے عالم میں کانپتی ہوئی اس کے سینے کے ساتھ لگی ہوئی تھی اس کی تیز ہوتی دھڑکنیں قربان خان کے سینے کا حصہ بن گئی تھیں اس کی دھڑکنیں قربان خان کو اپنے سینے میں بجتے اپنے کانوں تک بھی بخوبی سنائی دے رہی تھیں اس کا کانپنا محسوس کر کے قربان خانزادہ کے لبوں پر استھزائیہ مسکراہٹ بڑھتی جا رہی تھی قربان خان نے اسے خود سے الگ کرتے ہوئے اسے زمین پر دھکا دیا تھا اسے وہ اچھوت سے کم نہیں لگ رہی تھی مگر وہ اسے آج چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا اس کے اندر آلاؤ دہک رہے تھے جس نے یہ آلاؤ دہکاۓ تھے آخر اسے بھی تو اس آلاؤ میں دہکانا تھا وہ اوندھے منہ جا گری تھی اس سے پہلے وہ سیدھی ہوتی قربان خان نے اس کے مقابل پنجوں کے بل بیٹھتے اسے بالوں سے دبوچتے سیدھا کیا۔۔۔۔۔


    بند کرو یہ ڈارامے یہ اتنا ڈرنے کی ایکٹنگ تم جیسی لڑکیاں اس طرح گھبراتی ڈرتی اچھی نہیں لگتی ایسے ایکٹ مت کرو جیسے  تمھیں پہلے کسی نے چھوا نہیں تم نے مجھ سے پہلے کوئی مرد دیکھا نہیں جانے کتنے مردوں کو اپنے حسن اور معصومیت کے جال میں پھنسا کر بیوقوف بنا چکی ہو۔۔۔۔۔


    قربان خان کے ذلت بھرے الفاظ سن کر حور کا اس ٹھنڈی زمین میں سمانے کو دل کیا تھا۔۔۔۔۔


    مم میں ایسی لڑکی نہیں ہوں۔۔۔۔۔


    حور یکدم چیخی تھی کردار پر بات آئی تو وہ بلبلا اٹھی تھی اس کے چلانے پر مقابل کی آنکھوں میں خون اترا ہوا تھا وہ اس کی آنکھوں میں زیادہ دیر نہیں دیکھ سکی تھی کل تک یہ آنکھیں اور یہ لمس کسی مہرباں سے کم نہیں لگا تھا مگر آج پتہ چلا تھا اس سے بڑھ کر ظالم کوئی ہو ہی نہیں سکتا قربان پرسکون ہوتا گہرا مسکرا اٹھا تھا اس کا تڑپ کر چلانا اسے اندر تک سکون دے گیا تھا قربان نے اس کے بالوں پر اپنی گرفت مضبوط کرتے اسے جھٹکا دے کر اس کا چہرہ اپنے مقابل کیا۔۔۔۔۔


    میرے سامنے اگر دوبارہ تمھاری آواز اونچی ہوئی تو تمھارا وہ حال کروں گا تم دوبارہ بولنے کے قابل نہیں رہو گی اور تم کیسی لڑکی ہو یہ ابھی پتہ چل جاۓ گا۔۔۔۔۔


    وہ اس کے وجود پر نظریں گاڑھتے سفاکی سے بولا۔۔۔۔۔

    Beqrar Ramze By Farwa Khan Complete Novel


    Click Me And Get


    Online Reading


    Episode 11 To 20


    21 To 30 Episodes








    5 comments:

    Post Top Ad

    Post Bottom Ad

    ad728