Mujy Nasha Hai Teri Aashiqui Ka Complete Novel By Fariha Khan
All Episodes Available Free
آج سے آپکا اپنی بیٹی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں وہ میری غلام ہے جس کے ساتھ ہر غلط صحیح کرنے کا حق رکھتا ہوں میں ، ونی ہے وہ میری جس کے مقدر میں صرف رومان خانزادہ کی قید لکھی ہے ، جس کی زندگی کا ہر ایک پل صرف اذیت کی بھینٹ چڑھے گا ، وہ موت مانگے گی مگر اسکے نصیب میں موت سے بدتر زندگی لکھ دی جائے گی ، اب سے میرم وسیم رومان خانزادہ کا کھلونا ہو گی جسے توڑنے کا بھی حق میں رکھوں گا اور کھیل کر کسی کونے میں پھینک دینے کا بھی حق صرف مجھے حاصل ہو گا ، صرف رومان خانزادہ کو۔۔۔۔۔"
ایک جھٹکے سے میرم کو کلائی سے پکڑ اسکی پشت کو اپنے سینے کے ساتھ لگاتا وہ اپنی ایک بازو اسکے ایک کاندھے سے کراس کرتا دوسرے کاندھے تک لیجا کر اسے گرنے سے سنبھال گیا ، میرم کو آج کافی ٹائم بعد پھر سے وہی اٹیک آیا تھا جس میں نا صرف اسکی ہارٹ بیٹ خطرناک حد تک تیز ہو جاتی تھی بلکہ وہ خود بھی بے ہوش ہو کر اپنے حواس کھو دیتی تھی۔۔۔۔۔
رومان خانزادہ کے سہارا دینے پر میرم نے نیم بے ہوش ہوتے اسکے بازو کو خود سے دور کرنا چاہا وہ اس وقت اسکی کسی بھی بات کو سن یا سمجھ تو نہیں پا رہی تھی مگر رومان کا لمس اسے کانٹے کی مانند چبھ رہا تھا ، اسکے مبہم سے احتجاج پر رومان کے عنابی لبوں کو ہلکی سی مسکراہٹ نے چھوا ساتھ ہی اسکی گرفت پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہو چکی تھی۔۔۔۔
یہاں تک کے میرم کو اپنی ریڈھ کی ہڈی رومان خانزادہ کے چٹانی سینے کے ساتھ ٹکراتی محسوس ہوئی ، میرم کو رومان کے نزدیک دیکھ وسیم صاحب کے بدن میں حرکت ہوئی وہ ہوش میں لوٹتے رومان کے قریب ہوئے۔۔۔۔۔
" یہ غلط ہے رومان خانزادہ تم ایسا نہیں کر سکتے ، اس گناہ کی سزا تم میری معصوم بچی کو ہرگز نہیں دے سکتے جو اس نے کیا ہی نہیں ، یہاں سب جانتے ہیں کہ یہاں کیا ہوا اور مجرم کون ہے ، تم شہرام کی سزا میری بیٹی کو نہیں دے سکتے ، جا کر ڈھونڈو اپنی بہن اور شہرام کو پھر جو چاہے کرو اسکے ساتھ مگر خبردار میری بیٹی کے متعلق تم نے کچھ بھی غلط سوچا تو ، میرم ذمہ داری ہے میری بچی ہے میری جس کے ساتھ میں کچھ بھی غلط نہیں ہونے دوں گا۔۔۔۔۔"
وسیم صاحب غصے سے بولتے فرش پر گری پسٹل کو اٹھا رومان کی طرف تان گئے انکے ہاتھوں کی کپکپاہٹ رومان خانزادہ کے قہقہے کا باعث بنی۔۔۔۔
" ہر کسی کو اپنے جیسا مت سمجھا کریں ماسٹر جی ، رومان خانزادہ ہوں میں جو نا تو اپنی زبان سے پھرتا ہے نا ہی کیے گئے فیصلے سے ، اب مجھے نا تو تمہارے بیٹے کی جان میں کوئی دلچسپی ہے نا ہی اپنی بہن واپس چاہیے مجھے کیونکہ میرے ہاتھ وہ کھلونا لگ چکا ہے جسے چابی تو میں لگاؤں گا ناچنے گی بھی وہ میرے سامنے مگر اذیت تم لوگوں کو ہو گی ، اور اسی اذیت سے تم سب کو مرتے دیکھ میرے دل کو سکون ملے گا۔۔۔۔۔"
اسکی کہی بات سن وسیم صاحب نے پسٹل پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ضبط سے اپنے جبڑے بھینچے۔۔۔۔
" ایسا مت کرو رومان گناہ شہرام نے کیا ہے سزا بھی اسے دو میں بتا دیتا ہوں اسکا پتہ تم بس میرم کو چھوڑ دو اسکی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ، پینک اٹیک آیا ہے اسے ، ہاسپٹل لیجانے کی ضرورت ہے ورنہ وہ مر جائے گی۔۔۔۔"
وہ اپنی بیٹی کی خاطر تڑپ رہے تھے جس کی حالت بگڑتی جا رہی تھی وہ بھلا کیسے اپنی معصوم بیٹی کو اس درندے کے حوالے کر دیتے جو اپنے سگے رشتوں سے مخلص نہیں تھا نا جانے وہ انکی بیٹی کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتا۔۔۔۔۔
" کیا کہہ رہے ہیں آپ وسیم آخر کیسے آپ اپنے بیٹے کو مرنے دے سکتے ہیں ، وہ شہرام ہے ہمارا ، میرا بچہ ہے وہ ، میں آپکو ایسا کچھ بھی نہیں کرنے دوں گی ، جو ہو رہا ہے ہونے دیں یہی بہتر ہے سب کے لیے ، شہرام کی جان بچانے کے لیے میرم کو یہ کرنا ہی ہو گا۔۔۔۔"
رقیہ بیگم جو کب سے خاموش تماشائی بنی کھڑی تھیں اچانک وسیم صاحب کے قریب جاتی انکے ہاتھ سے پسٹل لے کر اسے دور پھینک گئیں انکی خود غرضی دیکھ وسیم صاحب کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا انھوں نے تاسف نے اپنی بیوی کو دیکھا جو مامتا میں اندھی ہوئے اس معصوم لڑکی کی قربانی دینے کو تیار تھیں جو کہ شاید اپنے حواس بھلائے رومان کے سینے پر سر ٹکا چکی تھی۔۔۔۔
" ارے واہ کیا ایموشنل فلم چل رہی ہے میری تو آنکھوں میں آنسو آ گئے دل دکھی ہو گیا سچ میں ، اسی دکھ میں آپکو بتاتا چلوں جتنے آنسو بہانے ہیں جتنا ماتم منانا ایک ساتھ ہی بہا لیں ، کیونکہ آپکی بیٹی آج سے مر ہی چکی ہے آپ لیے ، اسے ہاسپٹل لیجانا نا لیجانا میرا فیصلہ ہے ، ویسے رومان خانزادہ سے بہتر ڈاکٹر اسکے لیے کوئی اور ثابت نہیں ہو گا۔۔۔۔۔"
" اب سے اسکے ہر مرض کا علاج بھی میں ہوں اور دوا بھی ، تو پھر چلتے ہیں ماسٹر صاحب اپنے بیٹے کو بتا دیجیے گا اسکی بہن نے اسکی جان کی خاطر خود کو قربان کر دیا ، ایک جہنم سے بھی بدتر زندگی کو چن لیا اس نے صرف اپنے بھائی کی محبت کو انجام تک پہنچانے کے لیے۔۔۔۔۔"
سخت نظروں سے انھیں گھورتا وہ اپنی سیاہ لیدر کی جیکٹ اتار میرم کے کاندھوں پر ڈالے ایک جھٹکے سے اسے گود میں اٹھا کر گھر سے باہر اپنی گاڑیوں کی طرف بڑھا جاتے جاتے اس نے اشارے سے اپنے گارڈز کو شیر گل خان کی لاش اٹھانے کا اشارہ کیا تھا ، اسکی سفاکی اور بے رحمی پر نا صرف ویسم صاحب صدمے کی کیفیت میں تھے بلکہ وہ تمام گارڈز بھی حیران و پریشان تھے کسی کو ذرا توقع نہیں تھی کہ رومان خانزادہ ایسا کچھ بھی کر سکتا ہے۔۔۔۔
No comments